حبیب جالب: جہدِ مسلسل کی علامت
بے شمار شاعروں سے زندگی بھر واسطہ پڑا ہے اور واسطہ رہا ہے لیکن حبیب جالب جیسا مضبوط شخص کوئی دوسرا نہیں دیکھا۔ جوانی میں وہ رومانی شاعری میں مشغول رہا۔ بہت مسحور کن آواز قدرت نے عطا کی تھی۔ 1958ء تک وہ مشاعروں کی ضرورت بن چکا تھا۔ اگر وہ اپنے آپ کو انھی محفلوں تک محدود رکھتا تو چند سال بعد جگرمراد آبادی کی طرح پاکستان اور بھارت کے مشاعروں میں اس کی شرکت ناگزیر ہو جاتی۔ مشاعروں سے اسے جو کچھ حاصل ہوتا وہ اس کی اور اس کے بیوی بچوں کی کفالت بخوبی کر دیتا مگر جوں ہی اکتوبر 1958ء میں کمانڈر اِن چیف جنرل محمد ایوب نے مارشل لا نافذ کیا جالب کی رومانی شاعری گہری نیند سو گئی اور اس کے باطن میں عام آدمی کو خوشحال دیکھنے کی امنگ انگڑائی لے کر بیدار ہو گئی چنانچہ ایوب خان، یحییٰ خان، ذوالفقار بھٹو، ضیاء الحق اور مابعد کے زمانے میں اس نے مساوات، جمہوریت اور انصاف کی ترویج اور ہر قسم کے استحصال کو ختم کرنے کے لیے جو جنگ لڑی وہ آخری سانس تک جاری رکھی۔
میرا حبیب جالب سے تعارف پہلی بار 1957ء میں ہوا تھا اور تعلق اس کی وفات تک جاری رہا۔ پینتیس سال کی مدت کسی کو جاننے کے لیے خاصی طویل ہے۔ میرا اس سے تعارف ہوا تو میں سترہ سال کا طالب علم تھا اور جب جالب نے مختلف بیماریوں سے نبردآزما ہوتے ہوتے آخری سانس لی تو میں ادھیڑ عمر میں پہنچ چکا تھا۔ اس عرصے میں میرے دل میں اس کی عزت بڑھتی چلی گئی اور اب جب کہ میری عمر بڑھاپے کی آخری حدوں میں داخل ہو چکی ہے مجھے پختہ یقین ہو گیا ہے کہ انھی خیالات اور احساسات کی روشنی پھیلے گی تو حالات کا رخ بہتری کی جانب ہو سکے گا۔
میں 1957ء میں جھنگ صدر (مگھیانہ) میں رہتا تھا اور انٹرمیڈیٹ کا طالب علم تھا۔ شاعری سے لگاؤ تھا۔ بہت سے اشعار آپ سے آپ یاد ہو گئے تھے اور خود بھی خامہ فرسائی شروع کر دی تھی۔ مذکورہ سال مشاعرہ سننے کے شوق میں ایک شاعر دوست کے ہمراہ لائلپور پہنچا۔ مشاعرے میں داخلہ پاس کے ذریعے تھا۔ ان دنوں وہاں بعض مقامی روزنامے شائع ہوتے تھے۔ ان میں سے ایک اخبار ’غریب‘ تھا۔ ہماری غزلیں اس میں چھپتی تھیں چنانچہ اس کے دفتر میں گئے اور کسی قدر بھاگ دوڑ کے بعد مشاعرے میں جا پہنچے۔ کھلی جگہ پر قناتیں لگا کر اسے وسیع ہال کی شکل دی گئی تھی۔ مشاعرہ شروع ہوا۔ سٹیج پر جھنگ کے ایک شاعر ساحر صدیقی بیٹھے تھے۔ وہ بھی حبیب جالب کی طرح انتہائی خوش گلو تھے۔ ان سے جا کر ملا۔ انھوں نے بھارت کے بعض شاعروں سے متعارف کرایا۔ فجر کی اذان سے ذرا پہلے حفیظ جالندھری آئے اور ان کے بعد مشاعرہ اختتام پذیر ہوا۔
جھنگ سے آنے والے میرے ساتھی لائلپور میں مزید رکنا چاہتے تھے۔ میں مشاعرہ گاہ کے قریب واقع گورنمنٹ ٹرانسپورٹ کے اڈے پر جھنگ واپسی کے لیے پہنچا۔ معلوم ہوا کہ بس ایک گھنٹے کے بعد جائے گی۔ کینٹین سے میٹھا بن اور کڑک چائے کا ایک کپ خریدا۔ پھر بس کی روانگی کا وقت آ گیا۔ میں بس میں داخل ہوا تو ایک نشست پر ساحر صدیقی اور حبیب جالب بیٹھے تھے۔ ساحر صدیقی نے مجھے اپنے ساتھ والی سیٹ پر بٹھا دیا اور حبیب جالب سے میرا تعارف ان الفاظ میں کرایا کہ ’یہ ہمارے شہر کا نوجوان شاعر ہیــ‘۔ جالب خوش مزاج معلوم ہوئے۔ ڈیڑھ گھنٹے کا یہ سفر بہت جلدی بیت گیا۔ اگلے دن دیکھا تو جالب جھنگ ہی میں گھوم پھر رہے تھے۔ پھر مسلسل کئی دن ان سے ملاقاتیں ہوتی رہیں۔ وہاں ایک ’نور ہوٹل‘ نامی ریستوران تھا۔ وہاں مقامی شاعر بیٹھا کرتے تھے۔ جالب بھی آنے جانے لگے۔ ایک روز عبدالحمید عدم بھی بھکر جاتے ہوئے آ نکلے۔ مقامی شاعروں میں شیر افضل جعفری آتے جاتے رہتے تھے۔ ایک روز دیکھا کہ حبیب جالب کے ساتھ گہرے سیاہ رنگ کا ایک شخص شہید روڈ پر گھوم رہا ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ جعفر طاہر ہے۔ عبدالحمید عدم نے رفعت سلطان کو بھی بلا لیا۔ چند دن بہت اچھی صحبتیں رہیں۔ اس عرصے میں حبیب جالب سے میری بہت اچھی علیک سلیک ہو گئی۔ پھر اچانک حبیب جالب چلے گئے اور معلوم ہوا کہ لائلپور میں ہیں۔ جھنگ اور لائلپور میں فاصلہ کم ہے۔ ہمہ وقت لوگ ایک شہر سے دوسرے آتے جاتے رہتے تھے، اس لیے حبیب جالب کی سرگرمیوں کے بارے میں بھی گاہے اطلاع مل جاتی۔ ان دنوں معلوم ہوا کہ جالب کو مشہور سرمایہ دار سعید سہگل نے اپنی کاٹن ملز میں ملازم رکھ لیا ہے۔ جالب ملازمت کے آداب کیا جانیں۔ وہاں ایک مشاعرہ ہوا۔ جالب شاید ملازمت سے تنگ آ گئے تھے۔ انھوں نے ایک غزل پڑھی جس کے دو شعر یہ ہیں:
زندگی ڈھل گئی مشینوں میں
شعر ہوتا ہے اب مہینوں میں
پیار کی روشنی نہیں ملتی
اُن مکانوں میں اِن مکینوں میں
مزید غضب یہ کیا کہ ’اُن مکانوں‘ کے ترنم کو کھینچتے ہوئے ملوں کی عمارتوں کی طرف اور ’اِن مکینوں‘ کو طول دیتے ہوئے سٹیج پر بیٹھے ہوئے مالکان کی جانب اشارہ کر دیا۔ یہ گستاخی ناقابلِ معافی سمجھی گئی اور حبیب جالب کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا۔ اس فراغت کے بعد جلد ہی نوبت فاقہ کشی تک پہنچ گئی۔ ایک دکان دار نے اپنے گھر میں ایک کمرہ انھیں دے دیا اور دیگر ضروریات کا بھی کفیل ہو گیا۔ ایک دن جالب اس کی دکان پر گئے تو دکان دار کے پاس اس کا کوئی شناسا بیٹھا تھا جو شعر کہنے کا مدعی تھا۔ دکان دار نے جالب سے کہا، ’اس شاعر سے تمھارا مقابلہ ہے‘۔ پھر ایک قہقہہ لگایا۔ جالب کو یہ بات ناگوار گزری۔ بدمزہ ہو کر وہاں سے اٹھے اور اس پس منظر میں ایک شعر ہو گیا:
قہقہے بے شعور لوگوں کے
کس قدر بار ہیں سماعت پر
پھر کچھ لوگوں کو پس منظر بیان کرکے سنایا۔ بعض لوگوں کو جو جالب کی شہرت کے سبب اس سے حسد کرنے لگے تھے بات بڑھانے کا موقع مل گیا۔ چنانچہ دو مقامی اخباروں یعنی ’غریب‘ اور ’عوام‘ نے جالب کے خلاف فرضی ناموں سے ہجویات کی اشاعت شروع کر دی۔ کچھ اچھے لوگوں نے بیچ بچاؤ کرا دیا لیکن جالب اس واقعے سے بہت دل برداشتہ ہوئے اور بہت بعد تک یہ قصہ انھیں یاد رہا۔
1958ء میں انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرکے میں لاہور میں بی اے کرنے آ گیا۔ خوشی ہوئی کہ حبیب جالب بھی لاہور ہی میں ہیں۔ چنانچہ ان کے ساتھ پاک ٹی ہاؤس اور کافی ہاؤس وغیرہ میں نشستیں ہونے لگیں۔ ان دنوں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’برگِ آوارہ‘ مکتبۂ کارواں لاہور سے چھپ رہا تھا اور اتفاق کی بات یہ ہے کہ منیرنیازی کا پہلا شعری مجموعہ ’تیز ہوا اور تنہا پھول‘ بھی اسی ناشر کے ہاں اشاعت کے مراحل طے کر رہا تھا۔ مکتبۂ کارواں اس زمانے کا بہت مؤقر ادارہ تھا جہاں سے فیض، احمد ندیم قاسمی، سیف الدین سیف، عدم وغیرہ کے مجموعے چھپے تھے۔ مکتبۂ کارواں کے چودھری عبدالحمید علی گڑھ سے ایم اے فارسی تھے۔ قیامِ پاکستان سے پہلے افغانستان میں استاد رہ چکے تھے۔ خود بھی اچھے شاعر تھے اس لیے ان کے ادارے سے کسی شاعر کے مجموعۂ کلام کی اشاعت اہمیت رکھتی تھی۔ جالب اور منیرنیازی دونوں سے وہاں کئی ملاقاتیں ہوئیں، خصوصاً جالب کے ساتھ میں چند دیگر شعراء سے بھی متعارف ہوا اور وہ عموماً مجھے اپنے ہمراہ مکتبۂ کارواں لے جاتے جہاں کئی دیگر مشاہیر مثلاً حفیظ جالندھری، مرزا منور، کرامت حسین جعفری، شریف کنجاہی، پروفیسر غلام مصطفیٰ خان (حیدرآباد یونیورسٹی جامشورو) وغیرہ سے بھی ملاقاتوں کے مواقع میسر آئے۔ (جاری)