• news

اتوار ،5 ذیقعد 1443ھ‘ 5 جون 2022ء

عمران کے بیان کیخلاف پیپلزپارٹی آج مظاہرے کرے گی‘ ریلیاں نکالے گی
بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت آصف علی زرداری نے ’’پاکستان کھپے‘‘ کا نعرہ لگاکر مشتعل پارٹی کارکنوں کے جذبات ٹھنڈے کرنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ اس کے بعد یہ نعرہ پاکستانی سیاست میں ایک سمبل بن گیا۔ چند روز قبل سابق وزیراعظم عمران خان نے جو آج کل اقتدار چھن جانے کے بعد بوکھلائے بوکھلائے پھر رہے ہیں۔ اپنے ایک انٹرویو میں دشمنوں کے منہ میں خاک ملک کے ٹکڑے ہونے فوج کو نقصان پہنچنے اور ایٹمی اثاثے غیروں کے ہاتھ چلے جانے کی جو بات کہی۔ وہ خاصی خطرناک اور افسوسناک ہے۔ ان کی یہ باتیں اگر کوئی دیوانے کی بہکی بہکی بات کہہ کر نظر چرائے تو کیا کہا جا سکتا ہے مگر ان کی پارٹی کے ہمدرد اور کارکن جس طرح اس بیان کے حق میں اونگی بونگی دلیلیں دے دے کر کھپ رہے ہیں۔ اس پر سنجیدہ طبقات کو حیرت ہے۔ شور اس کے خلاف بہت ہو رہا ہے۔ مگر خان صاحب کو یا ان کی جماعت کے رہنماؤں کے ماتھے پہ کوئی عرق انفعال چمکتا نظر نہیں آرہا ہے۔ اب ان کے اس بیان پر پیپلزپارٹی کے چیئرمین آصف علی زرداری نے قدرے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے جوابی طور پر ’’پاکستان کھپے‘‘ ریلیاں نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ تاکہ اس منفی بیانیئے کی مذمت کی جائے۔ ویسے عمران خان کے اس بیان کی کوئی بھی محب وطن حمایت نہیں کر سکتا۔ مگر کیا کریں۔ اس سیاسی دیوانے کی باتوں پر اگر گرفت نہ کی گئی تو خدا جانے آئندہ اس کی پٹاری سے کیسے کیسے مزید زہریلے بیانیئے برآمد ہونگے۔ اس وقت ملک بھر میں ’’کھپے کھپے پاکستان کھپے‘‘ کے نعرے کی گونج میں ایسے بیانیئے کا سر کچلنا ضروری ہے۔
٭٭٭……٭٭٭
اسلام آباد ایئرپورٹ ملازم نے گدھا گاڑی پر دفتر آنے کی اجازت مانگ گی
 یہ تو مہنگی سواری ہے۔ گدھے کا اور گاڑی کا خرچہ کون اٹھائے اس سے بہتر ہے سائیکل خرید لی جائے۔ اور پٹرول کی جھنجٹ سے جان چھڑائی جائے۔ ایسا کرنے کیلئے کسی سے اجازت مانگنے کی ضرورت کیوں۔ یہ کام تو جس کا جی چاہے وہ کر سکتا ہے۔ بھلا کسی کو اعتراض کیوں ہو۔ ہر افسر کی مرضی ہے پیدل آئے۔ سائیکل پر آئے‘ گدھے پر آئے یا گھوڑے پر۔ اب کوئی ہیلی کاپٹر جہاز میں آنے جانے کا عادی ہو تو اسے ہم کچھ نہیں کہہ سکتے مگر آنا تو اسے بھی پڑے گا۔ اب وہ پیدل آئے یا سائیکل پر۔ اگر یاد ہو تو ذرا ماضی کی یادوں کو کھنگالیں۔ چین جب تک سپر طاقت نہیں بنا تھا۔ دیوار چین کے علاوہ غیرمرئی آہنی پردے کے پیچھے چھپا ہوا ۔ چین اس دور میں اوپر سے لے کر نیچے تک ادنی سے لے کر اعلیٰ تک سائیکل پر سفر کرتے تھے۔ بیگار کیمپوں میں لا کر کام پر لگائے جاتے تھے۔ کسی کو مفت کی مراعات حاصل نہیں تھیں۔ یکساں لباس یکساں خوراک یکساں رہائش کا تصور پختہ کر دیاگیا تھا۔ جسے ہم چینی سوشلزم کہتے ہیں۔ اس کی بدولت ایک افیونی قوم مسلسل 40 برس کی زبردست مشکلات سہہ کر وہ وقت نکال گئی اور آج دنیا کی سپر طاقت بن گئی۔ اب وہاں وہ سب کچھ ہے جو ہمارے پاس نہیں۔ اب پٹرول اشیائے خودونوش اور بجلی کی قیمتیں پاکستان میں آسمان کو چھو رہی ہیں تو یہاں بھی چین کا ماڈل نافذ کیا جائے۔ یکساں لباس‘ یکساں رہائش‘ یکساں خوراک نہ سہی۔ سائیکل عام کریں۔ پٹرول امرا خود خریدیں خواہ حکومتی عہدیدار یا ملازم کیوں نہ ہوں۔ بڑی گاڑیوں کے سڑکوں پر آنے پر پابندی لگا دیں۔ مارکیٹیں کاروباری مراکز صبح 9  بجے کھلیں شام 7 بجے بند ہوں۔ اس کے علاوہ اشیائے خورو نوش سرکاری قیمت سے زیادہ پر فروخت کرنے والوں رشوت لینے والوں کو فوری سزائے موت دے کر چوک پر لٹکایا جائے پھر دیکھیں یہ مشکل وقت کیسے گزرتا ہے۔
٭٭٭……٭٭٭
ایڈن گروپ پلی بارگین کی درخواست منظور‘ سراسر ظلم ہے متاثرین
یہ اچھا کھیل تماشہ ہے جسے پلی بارگینگ کا نام دیا گیا ہے۔ جس کا جی چاہے ملکی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچائے اور اسکے جواب میں کروڑوں روپے ادا کرکے اپنی گردن چھڑوالے۔ ماضی کی ایسی بے شمار وارداتوں میں ہی کچھ ہوتا رہا ہے مگر کسی کو خیال نہیں آتا کہ وہ اس ناانصافی اور ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والے سسٹم کیخلاف آواز بلند کرے۔ ایک ارب لوٹنے والا اگر 23 کروڑ دے کر جان چھڑاتا ہے  تو یہ کون سے احسان ہے۔ وہ بدبخت تو پھر بھی 77 کروڑ کھا گیا نقصان تو خزانے کا ہوا ملک کا ہوا۔ کیا کوئی صاحب عقل اپنے مال کے ساتھ ایسا کر سکتا ہے۔ اپنی رقم کے بدلے میں آدھی سے کم رقم لے کر خاموش بیٹھ سکتا ہے۔ نہیں ایسا کوئی نہیں کرتا تو پھر سرکاری خزانے کیلئے ’’مال مفت دل بے رحم‘‘ والی پالیسی کیوں استعمال کی جاتی ہے۔ یہ تو سراسر ظلم ہے۔ زیادتی ہے اربوں کھربوں روپے لوٹنے والے اس قابل ہوتے ہیں کہ وہ ساری رقم ادا کر سکتے ہیں مگر کیا کریں انکے سہولت کار انہیں مشورے دے کر غلط راہ پر لگا کر اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔ کیا کوئی محب وطن حکمران ایسا نہیں ہے جو کم از کم اس پلی بارگین والے منحوس چکر سے ملک کو نکالے اور تمام ایسے کیسوں میں پوری لوٹی جانے والی رقم واپس لے۔ جو نہیں دے سکتے ان کی ملکی غیرملکی منکوحہ غیر منکوحہ معاف کیجیئے منقولہ غیرمنقولہ جائیدایں ضبط کرکے رقم پوری کی جائے۔ اس میں کسی کو بھی رعایت نہیں ہونی چاہئے۔ اب ایڈن گروپ والوں کو ہی دیکھ لیں کھربوں کی ان کی جائیدادیں ہیں۔755 ارب روپے موجودہ ویلیو ہے انکے اس کیس کی زمین کی مگر یہ صرف 16 ارب روپے وہ بھی 16 سال میں قسط وار ادا کریں گے۔ واہ جی واہ کیا بات ہے۔ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک۔ متاثرین روئیں نہیں تو کیا بھنگڑے ڈالیں۔
٭٭٭……٭٭٭
سینیٹ میں ولید اقبال کا انوکھا احتجاج بانگ لگاتے رہے
بھئی مرغ صرف مرغ مسلم ہی نہیں ہوتا ۔ یہ صرف کھانے کے کام نہیں آتا۔ مرغان سحر سے مراد صبح کے چہچانے والے پرندے ہیں۔ ان میں مرغ کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ یہ ایسا نیک بخت ہے کہ سحری کے وقت سے ہی بانگ لگانا شروع کر دیتا ہے۔ حالانکہ اس وقت باقی پرندے بھی آرام کر رہے ہوتے ہیں مگر یہ ذات شریف جوککڑوں کڑوں کی گردان شروع کرتا ہے تب تک خاموش نہیں ہوتا جب تک دیگر مرغان سحر چہچانے نہ لگیں۔ اب میاں مرغ کی اہلیہ یعنی بیگم مرغی خاموش طبع ہوتی ہے۔ مگر جب انڈہ دینا ہو تو پھر خدا کی پناہ جو وہ ککڑ ککڑ کرنے لگتی ہے۔ آسمان سر پر اٹھا لیتی ہے۔ یہ تو تھی مرغے اور مرغی کی کہانی جو سب نے سنی اب آتے ہیں گزشتہ روز سینیٹ میں ایک ایسی ہی کہانی سنی نہیں دیکھی گئی جب اپوزیشن کے احتجاج کے دوران سینیٹر ولید اقبال باقی ممبران کے ساتھ ڈیسک بجاتے ہوئے خود بلند آواز سے مرغے کی طرح بانگ دیتے اور ککڑوں کڑوں کرتے رہے۔ شاید وہ علامہ اقبال کے
 پھر چراغ لالہ سے روشن ہوتے کوئے دمن
مجھ کو پھر نغموں پراکسانے لگا مرغ چمن
 والے شعر کو عملی شکل دینے کی کوشش کر رہے تھے ویڈیو پر وائرل ہونے والی یہ سوشل میڈیا پر کافی مقبول ہو رہی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن