• news
  • image

مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کردیا

عنبرین فاطمہ
پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے نے ایکبار پھر چیزوں کی قیمتوں کو پر لگا دئیے ہیں ملکی تاریخ میں پیٹرول پہلی بار دو سو روپے لیٹر ہوا ہے۔اسی طرح سے بجلی کے فی یونٹ میںاضافہ بھی کیا گیا ہے،یوں ہر چیز خصوصی طور قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں۔لوگ بلبلا اٹھے ہیں،مہنگائی میں کسی بھی صورت کمی ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ آئے دن بڑھتی ہوئی مہنگائی نے غریب آدمی کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ملک میں جو مہنگائی بڑھ رہی ہے اس کی سب سے بڑی وجہ آئی ایم ایف سے کیے گئے معاہدے ہیں ،خدشہ ہے کہ مستقبل میں مزید مہنگائی کا طوفان اٹھے گا۔بجلی کی قیمتیں ہوں یا آٹا چینی ،گھی، دالو ں کی قیمت ہر دوسرے ہفتے ان کے نرخ بڑھ جاتے ہیں۔اس ساری صورتحال اورمہنگائی سے سب سے زیادہ خواتین متاثر ہوتی ہیںکیونکہ امور خانہ داری کے معاملات خواتین ہی دیکھتی ہیں محدود آمدنی میں اپنے تمام اخراجات کو پورا کرنا اور ایک توازن قائم رکھنے میں انہیں خوب ہاتھ پائوں مارنے پڑتے ہیں۔اشیائے خوردونوش کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتیں خواتین کے بجٹ کو معمول سے ہٹا دیتی ہے۔اس حوالے سے ہم نے لاہور کی رہائشی چند ایک خواتین سے بات چیت کی۔
سمن آباد کی رہائشی ثمن قریشی نے کہا کہ ہر دوسرے ہفتے ، پٹرول، ادویات اور اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے لیکن انتظامیہ اور اہل اقتدار اس کے تدارک کے لئے کسی قسم کے بھی اقدامات کرنے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔اچھرہ کی رہائشی گھریلو خاتون سمیرا بشیر نے کہا کہ اب تو گھر کا ایک بجٹ بنانا نا ممکن ہو گیا ہے کیونکہ ہر مہینے کے بعد بجٹ میں مجموعی طور پر روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھنے کی وجہ سے غیر معمولی اضافہ ہوجاتا ہے۔ سیدہ بشری بیگم کہتی ہیں کہ ہر دوسرے ہفتے اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے غریب آدمی کہاں جائے جس کی پہنچ سے اشیائے ضروریہ باہرہو چکی ہیں۔ہر مہینے میں گھر کا بجٹ دوگنا ہو رہا ہے جس کی وجہ سے اکثر خواتین ذہنی دبائو کا شکار ہو رہی ہیں۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی میں تو اضافہ ہوا ہے لیکن ہماری آمدن میں تو اضافہ نہیں ہوا ہے اس لئے ہم معاملات زندگی چلانے سے قاصر ہیں۔
مسز انجم وحید نے کہا کہ موجودہ دور میں یہ سب ہماری پہنچ سے باہر ہو چکا ہے دوسری طرف بچوں کی اتنی خواہشات ہوتی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ ہمارے والدین ان کو پورا کریں بات صرف ان کے کھانے پینے پر آکر ختم نہیں ہو جاتی بلکہ پہننا اوڑھنا ،جوتے بھی بچوں کی اولین فرمائش ہوتے ہیں، بچوں کی ایسی خواہشات پوری نہ ہوں تواکثر بچے احساس کمتری کا شکار ہوجاتے ہیں ایسی صورتحال والدین کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہوتی ہے۔
دیگر خواتین نے کہا کہ حالت یہ ہے عام آدمی آج پورے گھرانے کو تین وقت کی روٹی دینے کے لئے سبزی یا دالیں خریدنے کی صلاحیت نہیں رکھتا بچوں کی فیسں ،بجلی،پانی اور گیس کے بل ہی اس کے بجٹ کا ستیا ناس کر کے رکھ دیتے ہیںخدانخواستہ گھر کا کوئی فرد بیمار ہوجائے یا اچانک مہمان آجائیں تو متوسط طبقے کے گھرانے کو اپنا مہینہ چلانے اور راشن پانی پورا کرنے کی فکر ہی مار دیتی ہے۔عام آدمی اپنے بچوں کی بنیادی ضروریات پوری کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تو وہ اپنے بچوں کو گوشت،پھل کہاں سے کھلائے ، ہر طرف مہنگائی اور بیچارگی نے اسے گھیر رکھا ہے گھر میں 6/7افراد کی ضرورتیں ہر وقت منہ کھولے رکھتی ہیں۔بچوں کی فیسیں اور یوٹیلٹی بل کے معاملات کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔آج ہم یہ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر پاکستان کس مقصد کے لئے قائم کیا گیا تھا پاکستان ہمارا نہیں بلکہ وڈیروں اور جاگیرداروں کا ہے جو غریب کی محنت سے شاہانہ زندگی بسر کرتے ہیں۔60%  لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہیں بجٹ ناکارہ ہو چکا ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔سمیرا انجم نے کہا کہ ارباب اختیار کو چاہیے کہ ان حالات میں اپنی معاشی پالیسیوں اور حکمت عملیوں میں ایسی تبدیلیاں لانے پر پوری سنجیدگی سے غور کریں جو عوامی زندگی پر مثبت اثرات مرتب کریں۔سیاسی جماعتیں نعرے لگانے کی بجائے حقیقی طور پر عوام کو ریلیف دینے کے لئے کام کریںتب جا کر مہنگائی کے جن پر قابو پایا جا سکے گا۔ طویل المعیاد منصوبہ بندیوں کی اہمیت اور افادیت اپنی جگہ لیکن فوری طور پر ایسے اقدامات بھی ضرور کئے جانے چاہیں جو مہنگائی کے ہاتھوں مسلسل پسنے والے عوام کی زندگی میں جلد کوئی خوشگوار تبدیلی لانے کا موجب بن سکیں۔ ہر آنے والی حکومت پچھلی حکومت پر ملبہ ڈالنے اور نعرے لگانے کی بجائے حقیقی طور پر عوام کو ریلیف دینے کے لئے کام کریںتب جا کر مہنگائی کے جن پر قابو پایا جا سکے گا۔ہمارے ہاں سیاسی جماعتیں نعرے لگا کر اقتدار میں آ تو جاتی ہیں لیکن ہر بارعوام کی امیدیں بر نہیں آتیں۔سچ تو یہ ہے کہ سیاسی جماعت چاہے کوئی بھی ہو وہ حقیقی معنوں میں عوام کے لئے کام کرنے کو تیار ہی نہیں ہے۔
مہنگائی نے غریبوں، دیہاڑی دار مزدوروں اور متوسط طبقے کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے عوام کی آمدن میں مسلسل کمی جبکہ اخراجات میں مسلسل اضافے نے لوگوں کو خود کشیوں پر مجبور کردیا ہے پٹرول، بجلی، گیس، ایل پی جی، آٹا، چینی، گھی، سبزیاں دالیں، دودھ، دہی اورڈبل روٹی کی قیمتوں میں کئی گنا اضافہ ہو چکا ہے ادویات کی قیمتیں بھی بڑھا دی گئی ہیں ان حالات میں جو لوگ اپنے بچوں کے لئے دووقت کی روٹی نہیں خرید سکتے وہ علاج معالجہ کیسے کروائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ملک کے غریب اور بے سہارا طبقے کیلئے روزگار فراہم ہو۔ بیروزگاروں کو گزارہ الائونس ملے ، سرچھپانے کیلئے مکان ہو اور ہر شہری کو خوراک ‘تعلیم ‘صحت اور سب سے بڑھ کر انصاف تک رسائی حاصل ہو۔ حکومت ایسے فیصلے کرے جس سے عام شہریوں کی زندگی میں بہتری آئے۔ان تمام خواتین کا جن سے ہم نے بات کی مطالبہ ہے کہ اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں مناسب حد تک کمی لائی جا ئے تاکہ لوگ سکھ کا سانس لے سکیں ۔

,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,,

epaper

ای پیپر-دی نیشن