عالمی کساد بازاری اور پاکستانی معیشت!
ادارہ شماریات کی طرف سے جاری کئی گذشتہ روز کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں پچھلے ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح 2فیصد رہی جبکہ گذشتہ سال 2021ء کے مقابلے میں 20.4 فیصد اضافہ یکارڈ کیا گیا۔ آج کل معاشی حوالے سے پاکستان میں صورت حال حوصلہ بخش نہیں ہے۔ سٹاک مارکیٹ اور روپیہ کی قیمت مسلسل گِر رہی ہے۔ رواں ہفتے کے آغاز میں سٹاک مارکیٹ میں 900پوائنٹس کی کمی نوٹ کی گئی۔ ادھر پنجاب کی ٹیکسٹائل ملز کو گیس کی فراہمی بند کر دی گئی، اس کے منفی اثرات بھی معیشت پر مرتب ہوئے ہیں۔ گیس کی فراہمی جون میں بند کی گئی جب گیس کا گھریلو استعمال کم از کم ہوتا ہے۔ ادھر گیس کی بدترین لوڈشیڈنگ ہے جہاں عوام عذاب میں مبتلا ہیں وہیں کاروبار بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ اس دوران پٹرولیم کی قیمتوں میں طوفانی اضافہ عام آدمی کی برداشت سے باہر ہے۔ایک ہفتے کے دوران 60روپے فی لیٹر اضافہ عوام کیسے برداشت کر سکتے ہیں۔
جیسے بھی ہوا اتحادی پارٹیاں اقتدار میں آ چکی ہیں۔ 7اپریل کو سپریم کورٹ کے روبرو میاں شہبازشریف نے کہا تھا کہ ان کے پاس معیشت کی بہتری کے لیے پلان ہے اور ٹیم بھی ہے اس لیے انہیں موقع دیا جائے۔ انتخابات کی طرف نہ جایا جائے۔ آج روایتی انداز میں ہر خرابی کا ملبہ سابقہ حکومت پر ڈالا جا رہا ہے۔ عمران خان اپوزیشن میں ہیں، ان کی حکومت توڑی گئی، ان کا غصہ سمجھ آتا ہے مگر جو لوگ ان کی جگہ آئے وہ عمران کے ہر بیان پر زیادہ اشتعال میں آ جاتے ہیں۔ حکمران اشرافیہ کو زیادہ برداشت کامظاہرہ کرنا ہوتا ہے۔ اپوزیشن پر مقدمات کی بھرمار آج کی حکومت نئی روایت قائم کر رہی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان سے سکیورٹی واپس لے لی گئی۔ اس اقدام کا مناسب جواز بھی نہیں ہے۔
آج پاکستان ہی نہیں امیر ممالک سمیت پوری دنیا کسادبازاری کاشکار ہے۔ کرونا نے کئی ممالک کی معیشتیں ڈبو دیں۔ مہنگائی کا عفریت بے قابو رہا۔ امریکہ، کینیڈا، یورپ کے امیر تین ممالک کرونا کے تباہ کن اثرات سے نہ بچ سکے۔ اٹلی ، سوئٹزرلینڈ، جرمنی، آسٹریلیا، سکینڈے نیوین ممالک کی آبادی بہت کم ہے یہ امیر بھی ہیں لیکن یہ بھی مہنگائی کے طوفان کی زد میں آئے۔ اموات بھی لاتعداد ہوئیں۔ کرونا سے دنیا اب نکل آئی ہے مگر اسکے اثرات خصوصی طور پر معیشتوں پر بدستور جاری ہیں۔ ابھی تک کئی کاروبار لیبر کی واپسی نہ ہونے کے بعد بند پڑے ہیں۔ آج بھی دنیا بُری طرح مہنگائی کی لپیٹ میں ہے۔ کرونا کے معیشت پر اثرات سے کوئی ملک محفوظ نہیں رہا تو پاکستان کیسے رہ سکتا تھا مگر اس حقیقت کو پوری دنیا نے تسلیم کیا کہ پاکستان کو اموات اور معاشی حوالے سے بہت کم نقصان ہوا۔ کرونا کے دوران ملک کو بند نہیں کیا گیا۔ کرونا کے دوران ہی ٹیکسٹائل انڈسٹری میں بوسٹ آنا شروع ہو گیا اور لیبر کم پڑنے لگی۔ مہنگائی ضرور تھی مگر باقی دنیا کے مقابلے میں بہت کم تھی جس کا لوگوں کو اب انداز ہ ہو رہا ہے۔ پٹرول کی دنیا میں دو سے تین گنا قیمتیں بڑھیں مگر پاکستان میں معمولی اضافہ ہوا۔عمران خان حکومت نے سبسٹڈی دے کر مارچ سے جون تک تیل کی قیمتیں منجمد کرکے عوام کو بہت بڑا ریلیف دیا۔ عمران خان اور شوکت ترین نے پیسوں کا بندوبست کرکے سبسٹڈی دی تھی۔ اس دور میں معیشت درست سمت میں تھی جس کا کچھ لوگوں کو اس وقت ادراک نہیں تھا۔ عمران خان نے نیوٹرلز کو درست آگاہ کیا تھا۔ مگر جو ہو چکا اب اَنڈو نہیں ہو سکتا۔اس بحران سے نکلنے کے لیے بہترین حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ کرونا قصۂ پارینہ ہو چکا ہے مگر یوکرین وار جیسے معاملات دنیا کی معیشتوں اور مہنگائی پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ان حالات میں پاکستان میں معاملات کو درست سمت میں چلانے کے لیے بہترین دماغوں کی ضرورت ہے۔ روس سے پٹرول خرید کر آج بھی عوام کو مہنگائی کے بھوت سے محفوظ کیا جا سکتا ہے اور پھر شوکت ترین جنہوں نے پاکستان کی معیشت کو بہترین خطوط پر استوار کر دیا تھا ان کی مشاورت اور معاونت حاصل کی جا سکتی ہے۔ اقتدار اتحادی پارٹیوں کے پاس ہے ان کو بڑا دل کرتے ہوئے موجودہ صورت حال کی ذمہ داری بھی قبول کرنے کی روایت ڈالنی چاہیے۔
قارئین! عالمی کساد بازاری نے جہاں دنیا بھر کی معیشت کو تہس نہس کیا ہے ،وہی پاکستانی معیشت کی بھی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ یقینا پاکستانی عوام اس بلا کو قبول کرنے کو تیار نہیں مگر پاکستانی عوام کو یہ ادراک ہونا چاہیے کہ عالمی سطح پر بھی امیر اور ترقی یافتہ ممالک بھی اس افتاد سے شدید متاثر ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر امریکہ اور کینیڈا جیسے امیر ممالک میں ایک مڈل کلاس پانچ افراد پر مشتمل گھرانہ کرونا سے پہلے اپنے گھر کے کچن کے لیے چار سے پانچ سو ڈالر تک کی گروسری استعمال کرتا تھا مگر آج کرونا کی معاشی تباہی کے بعد ایک مہینے کی گروسری ڈھائی سے تین ہزار ڈالر تک پہنچ چکی ہے۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ روز کینیڈین سنٹرل بینک نے قرضوں میں مارک اپ شرح .5 پانچ فیصد تک بڑھا دی ہے، جس سے رئیل اسٹیٹ کے بزنس کو شدید دھچکا لگا ہے۔کینیڈا میں مقیم معروف رئیل اسٹیٹر شہید چوہدری اور آفتاب ملک سے اس بارے میں بات ہوئی تو ان کے ذمہ دارانہ تجزیے کے مطابق اس سال کے آخر تک مزید تین سے چار مرتبہ بینکوں کی مارک اپ شرح مزید بڑھے گی،جس سے رئیل اسٹیٹ میں ایک عام گھر کی قیمت 2سے 3لاکھ ڈالر تک نیچے آ جائے گی،جس سے معیشت کو شدید دھچکا لگنے کا احتمال ہے۔اور رئیل اسٹیٹ سے متعلقہ اکابرین اسی صورت حال کی پاکستان میں بھی توقع کر رہے ہیں۔اور پاکستان کی حکومت کے لیے آئندہ دنوں میں بے شمار معاشی پریشانیوں کی نشاندہی متوقع ہے۔