• news

پاکستان کے معاشی مسائل کا حل

اس وقت دنیا پر سرمایہ دارانہ نظام کا تسلط ہے، عالمی ساہوکاروں نے ایسے کئی عالمی انتظامات کیے ہوئے ہیں جن کا مقصد صرف ایک ہی ہے کہ سرمایہ اور سرمایہ داروں کا تحفظ۔آپ صرف اس ایک بات سے اندازہ لگالیں کہ دنیا کی دس بڑی ملٹی نیشنلز کا سرمایہ دنیا کے سو سے زیادہ ملکوں کے سرمایہ سے بڑا ہے۔اصل سوال یہ ہے کہ اس طرح کے استعماری عالمی معاشی نظام میں رہتے ہوئے ترقی پذیر ممالک کیسے آگے بڑھ سکتے ہیں؟ اگر کسی حکومت کی پالیسی صرف غیرملکی اور ملکی سرمایہ داروں کا ہی تحفظ کرنا ہو تو پھر وہ حالات پیدا ہوجاتے ہیں جواب سری لنکا میں ہیں یعنی ملک دیوالیہ ہوجاتا ہے اور اب کہا جارہا ہے کہ پاکستان بھی اس طرح کے حالات سے دو چار ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ کیا پاکستان خود کو ان گمبھیر معاشی حالات سے باہر نکال سکتا ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہاں، پاکستان خود کو دیوالیہ ہونے سے بچاسکتا ہے مگر اس کے لیے انتہائی اہم معاشی فیصلے کرنا ہوں گے۔ اہم یا مشکل فیصلے، پیٹرول، بجلی یا گیس کی قیمت بڑھانا نہیں ہوتے بلکہ یہ آسان فیصلے ہوتے ہیں۔ بس عوام کے لیے مشکل ہوجاتی ہے۔ مشکل فیصلہ ایک آزاد، جامع اور مضبوط و مربوط معاشی پالیسی بنانا ہوتا ہے۔ پاکستان کی معیشت کو سنبھالا دینے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر چند فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔بجٹ کی آمد آمد ہے۔ عوام دوست بجٹ، عوام دشمن بجٹ سن سن کر کان پک گئے ہیں۔ اب صرف ’پاکستان دوست بجٹ‘ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ چند گزارشات حکومت کی توجہ کی طلبگار ہیں۔ 
سب سے پہلے ملک میں نیم دلانہ نہیں بلکہ حقیقی معاشی ہنگامی حالت کا اعلان کیا جائے۔اگر حکومت صرف اس ایک معاشی اصول کو اپنالے کہ ’جو ٹیکس بچائے وہ بچ نہ پائے‘ تو یقین کریں پاکستان اس معاشی بھنور سے نکل سکتا ہے۔ حکومت کے مطابق مجوزہ بجٹ کا خسارہ پانچ ہزار ارب روپے کے قریب ہوسکتا ہے جو کل بجٹ کا نصف بنتا ہے، یہ کل خام پیداوار کا دس فی صد ہے جسے پانچ فی صد پر لانا بہت ضروری ہے مگر نئے ٹیکسز لگائے بغیر بجٹ خسارہ کم کرنا ممکن نہیں ہوگا۔ حکومت کی آمدنی ٹیکسوں سے ہوتی ہے یا ان کاروبار سے جو عوام کے ٹیکسوں کے پیسہ سے حکومت کرتی ہے (جو اکثر و بیشتر منافع کی بجائے نقصان کررہے ہوتے ہیں)۔ ٹیکس دو طرح کے ہوتے ہیں: بلا واسطہ اور بالواسطہ۔ بالواسطہ ٹیکس عام عوام پر بری طرح سے اثرا انداز ہوتے ہیں۔ عام خریدو فروخت پر ٹیکس یعنی جنرل سیلز ٹیکس اس کی ایک مثال ہے۔ ایکسائز، کسٹم ڈیوٹیز ، اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی بالواسطہ ٹیکسز کے زمرے میں آتے ہیں۔ حکومت کے لیے مشکل فیصلہ بلاواسطہ یا براہ راست ٹیکس کا حصول ہوتا ہے جیسے انفرادی اور کمپنیوں کی آمدنی اور جائیداد کی خریدو فروخت پر ٹیکس۔ 
سرمایہ کی غیر قانونی بیرون ملک منتقلی کو روکا جائے۔ ایران اور افغانستان سے اسمگلنگ کو ختم کیا جائے خواہ اس کے لیے بارڈرز کو سیل کرنا پڑے۔ دفاع پر اخراجات اپنی ضرورت دیکھتے ہوئے خرچ کیے جائیں۔ سمارٹ دفاع کا تصور اپنایا جائے۔ وفاقی حکومت کا خرچہ جو سالانہ پانچ سو ارب روپے ہے، اسے کم کرکے آدھا کیا جائے۔ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ بھی جب ہیلی کاپٹر استعمال کریں گے تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ انہیں ملکی معیشت کی کتنی فکر ہے۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ تنخواہ کے علاوہ اضافی فوائد جو بجلی، گیس، پیٹرول، ادویات، سفر وغیرہ کی صورت میں حکومتی اور ریاستی مشینری کو حاصل ہیں وہ کسی طرح بھی اس وقت ہماری معیشت سے میل نہیں کھاتے۔ عوامی نمائندوں اور نوکر شاہی سے فی الفور اضافی مراعات واپس لی جائیں، یہ حالات بہتر ہونے پر دوبارہ دی جاسکتی ہیں۔ پنشن پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے، وفاق اور صوبوں کو ملاکر ایک ہزار ارب کے قریب پنشن میں چلے جاتے ہیں، پاکستان میں زندہ رہنے کی شرح توقع میں اضافہ ہوا ہے جو اب 67 سال ہے، ریٹائرمنٹ کی عمر 65 سال کرکے پنشن پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کی جا سکتی ہے۔ 
نجکاری کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔ بیمار یعنی نقصان میں جانے والے سرکاری ادارے صاف اور شفاف بولی کے ذریعہ نجی مالکان کو فروخت کیے جاسکتے ہیں۔ صنعتی اور زرعی پالیسی کو ازسر نو تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ زرعی ٹیکس کا نفاذ وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ویلیو ایڈڈ ٹیکس (وی اے ٹی) کا درست نفاذ حالات کا تقاضا ہے۔ وہ حکومتی ادارے جو درآمدات و برآمدات سے ڈیل کرتے ہیں، ان کی استعداد کار بڑھانے کی ضرورت ہے۔ برآمدات بڑھانے کے لیے ٹیکسوں میں چھوٹ سے لے کر توانائی کی مد میں رعایت دی جاسکتی ہیں تاکہ دوسرے ملکوں سے مسابقت پیدا ہوسکے اور برآمدات میں خاطر خواہ اضافہ ہو۔ زراعت اور صنعتوں کے لیے بجلی اور گیس کے ’زیادہ سے زیادہ استعمال پر کم سے کم قیمت‘ کے اصول پر عمل کیا جائے۔ شرح سود میں اضافہ سرمایہ کاری کی رفتار کو سست کردے گا۔ سرمایہ کاری کے فروغ لے لیے شرح سود کم رکھی جائے۔افراط زر پر کنٹرول اور روپے کی قدر میں اضافہ کے لیے سٹیٹ بنک اپنا کردار ادا کرے۔ پرتعیش اور لگژری اشیاء پر حکومت پہلے سی ہی پابندی عائد کرچکی ہے مگر اس کا دائرہ کار اور بڑھایا جاسکتا ہے، صرف ان درآمدات کی جو ملکی برآمدات کی پیداوار بڑھانے میں مدد گار ہوں جیسے خام مال اور جدید مشینری کی نہ صرف اجازت ہو بلکہ انہیں ٹیکس میں بھی خاطر خواہ چھوٹ دی جائے۔ اس سے درآمدات و برآمدات میں جاری خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ اس سال قرضوں کی ادائیگی اور دیگر ضروریات کے لیے پاکستان کو پینتیس ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی۔ برآمدات میں اضافہ کیے بغیر یہ ہدف پورا کرنا ممکن نہیں۔ (جاری)

ای پیپر-دی نیشن