اپنے بچوں کو بچائیں
سوشل میڈیا آج کے دور کی ایک ایسی حقیقت ہے جس سے تقریباً ہر کوئی واقف ہے اور کسی نا کسی طرح اسکے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ ایک زمانہ تھا کہ جب کوئی بیرون ملک جاتا تھا تو رابطے کیلئے خط استعمال ہوتے تھے ، جلدی پیغام پہنچانا ہے تو اسکے ٹیلی گرام ہوتا تھا، مگر ہم میں سے بہت کم لوگ اس بارے میں جانتے ہوں گے اس دور میں کئی لوگ جو بیرون ملک مقیم ہوتے تھے وہ اپنے پیاروں کو دیکھنے کیلئے یا سمجھیں کے خود اپنے بارے میں بتانے کیلئے آڈیو کیسٹ ٹیپ کا سہارا لیتے تھے اور کیسٹ ریکارڈ کر کے جو کوئی پاکستان آنے والے ہوتا اسکے ہاتھ بھیج دیتے، سالوں سے راہ دیکھتی مائیں کئی کئی بار ان کیسٹوں کو چلا چلا کر اپنے لختِ جگر کی آواز سنتیں، پھر بہت سارے لوگ آج سے بیس پچیس سال پہلے ہی کی بات ہے کہ ویڈیو ٹیپ بنا کر بھیجتے تھے اور عموماً پھر پورے رشتہ دار اکٹھے ہو کر اس ویڈیو کو دیکھتے تھے اور اپنے پیاروں کی آواز سنتے ، انہیں چلتا پھرتا دیکھتے، یہ بھی ایک عجیب سماں ہوتا تھا، ایسا ہی کچھ میرے ایک سومالیہ میں مقیم ماموں جو کہ اقوامِ متحدہ کے امن فوج کے دستے کے ساتھ وہاں گئے یا پھر یونان میں مقیم ندیم چاچو کرتے تھے، وہ اکثر آنے والوں کے ہاتھ آڈیو کیسٹ یا ویڈیو بنا کر بھیج دیتے تھے جواب میں ہم بھی ویسے ہی ایک آڈیو کیسٹ بھیجتے تھے۔ مگر یہ سب کچھ کر کے بہت خوشی ملتی تھی اور سب رشتہ داروں کی موجودگی میں اور بھی مزا آتا تھا۔
مگر جیسے جیسے ہم بڑے ہوتے گئے سب کچھ بدلتا گیا ، نئے دور میں مواصلاتی نظام کی ترقی کے باعث جہاں آڈیو ویڈیو کیسٹ غائب ہو گئے وہیں ان سب کی جگہ جدید ایپلیکیشنز نے لے لی ہے۔ اب آپ چاہے عرب ممالک میں ہوں یا پھر یورپ، امریکہ غرض دنیا کے کسی بھی خطے میں چلے جائیں بس اپنا موبائیل نکالیں اور اپنے پیاروں سے بات چیت شروع کر لیں، چاہے تو ویڈیو کال ہی کیو ں نا کریں ، اور جس حساب سے ترقی ہو رہی ہے جلد ہی ہمارے پاس ہولوگرام اور اس جیسی جدید ٹیکنالوجی بھی آجائیگی کہ ہم شاید اپنے ان پیاروں کے ساتھ ورچول دنیا میں انکے ساتھ چل پھر سکیں، ان سے باتیں کر سکیں، انکے دوستوں اور دیگر لوگوں سے بات چیت کر سکیں بالکل ایسے ہی جیسے کہ ہم انکے درمیان موجود ہیں۔
اب ہمیں پہلے کی طرح کسی کیمرے کو اٹھا کر گھمانے کی ضرورت نہیں ہے نا ہی ہمیں کسی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ ہماری فوٹو بنا دیں، اب تو سب کچھ ہمارے موبائل فون کے ذریعے ایک پل میں ہی ہوجاتا ہے۔اب ہم ایک فوٹو کھینچتے ہیں اور اسے واٹس ایپ کے اسٹیٹس پر لگا دیتے ہیں یا پھر انسٹا گرام اور فیس بک پر شیئرکر دیتے ہیں تو وہ فوٹو یا ویڈیو کچھ ہی دیر میں وائرل ہو جاتی ہے۔ ہزاروں لوگ ان تصاویر اور ان ویڈیوز کو دیکھتے ہیں ، مگر یہاں ہم ایک بات نہیں جانتے کہ یہ ہزاروں لوگ اس تصویر کو کس نگاہ یا مقصد سے دیکھ رہے ہیں اور انکے کیا ارادے ہیں اور ہمیں قطعی علم نہیں کہ کیا کوئی شخص ہماری ان تصاویر یا ویڈیوز کا کہیں کوئی غلط استعمال تو نہیں کر سکتا؟ مگر اس کا جواب یقینا یہی ہے کہ ہاں اگر کوئی شخص چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے اور ایسا کر کے وہ معاشرے میں آپ کو بدنام کر سکتا ہے ، آپکے رشہ دارو ںمیں آپ کا تشخص خراب کر سکتا ہے اور لوگوں کو آپکے بارے میں متنفر کر سکتا ہے ، حالانکہ آپکے دل میں شاید انکے بارے میں یا کسی بھی طرح کے کوئی ایسے خیالات ممکن ہے موجود ہی نا ہوں۔ اس لئے آج کے دور میں جہاں ہم اپنے بچوں کی پیدائش کے موقع سے ہی انکی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنا شروع کرتے ہیں اور پھر تو جیسے وہ بچے فیں بک اور انسٹاگرام پر ہی بڑے ہو رہے ہوتے ہیں، حالانکہ وہ اسکے بنا بھی ایسے ہی بڑے ہو سکتے ہیں، مگر ہم ان بچوں کی زندگی شروع سے ہی سوشل میڈیا سے اتنی لنک کردیتے ہیں کہ وہ خود بھی اسکے عادی ہو جاتے ہیں اور اسی دوران وہ کئی ایسی غلطیاں اور حرکات کر بیٹھتے ہیں جن کا کہ والدین کو بھی علم نہیں ہوتا اس لئے سب سے پہلے تو سوشل میڈیا کیسے استعمال کرنا ہے اسکے بارے میں خود سے آگاہی لیں۔پھر اس بارے میں اپنے گھر کے دیگر افراد خصوصاً دس سے بیس سال کے بچوں کو اس بارے میں بتائیں، انہیں بتائیں کے فیس بک پر صرف ان لوگوں کو دوست بنائیں جنہیں آپ جانتے ہیں ، اپنی تصاویر اور فیملی کی ویڈیوز شیئر کرتے ہوئے پرایئویسی آپشنز کا پورا استعمال کریں۔ لڑکیوں کے خصوصی توجہ کی ضرورت ہے کہ وہ انجان لوگوں سے کسی طور بھی اپنی ذاتی معلومات کا تبادلہ نا کریں، کسی صورت کسی آن لائن دوست سے ملنے کی کوشش نا کریں،ورنہ کل کو اگر آپ کی بچی یا بچہ کسی اور سے بھاگ کر شادی کر لیتا ہے تو اس کا مطلب یہ کہ اس فرد نے اسے آن لائن آپ لوگوں سے زیادہ توجہ دی اور اسے آپ سے زیادہ تخفظ کا احساس دلایا کہ وہ آپ کی بتائی ہوئی حدیں پھلانگ گئے۔ کل کو پورے میڈیا کے سامنے رونے دھونے سے بہتر ہے کہ ہم آج احساس کریں اور آج اپنے بچوں سے خود دوستی کریں اور انہیں جرائم پیشہ یا دھوکے باز لوگوں کے چنگل میں پھنسنے سے بچائیں۔