حمزہ شہباز کا اصل امتحان
یہ سوال ہر اس ذہن میں اٹھ رہا ہے جو سیاست سے دلچسپی رکھتا ہے۔ پنجاب کی سیاست میں جوڑ توڑ کے علاوہ قائدانہ صلاحیتوں کا ہونا بھی ضروری ہے۔ کوئی سیاستدان اس وقت تک مکمل عوامی اور سیاسی رہنما نہیں کہلا سکتا جب تک اس میں قائدانہ صلاحیتیں نہ ہوں۔ اس کا تجربہ گزشتہ 4 برس میں پنجاب کے عوام کو خوب ہو چکا ہے۔ صرف اچھا ہونا کافی نہیں کچھ کر کے دکھانا بھی ضروری ہے۔ عثمان بزدار کو اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی بھرپور حمایت حاصل رہی۔ انہیں کسی سے کوئی ڈر یا خطرہ نہیں تھا۔ عمران خان نے ہمیشہ عثمان بزدار کی حمایت کی ان کی پشت پناہی میں بہت سے اپنوں کو ناراض کیا۔ عثمان بزدار نے بھی حق ادا کرتے ہوئے ہمیشہ خاموشی اور وزیر اعظم کی خوشنودی کی راہ اپنائی۔ پنجاب کے مفادات تک قربان کر دئیے۔ پنجاب کے کروڑوں عوام حیرت سے اپنے وزیر اعلیٰ کی بے بسی یا حد سے بڑھتی غلامی کا منظر 4 سال متواتر دیکھتے رہے۔ سب کچھ ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر رہے۔ تحریک انصاف کے قائدین، کارکن خاموشی سے اپنے حصہ سے دوسروں کو عیش کرتا دیکھ کر بھی خاموش رہے۔ اس کے باوجود وہ ملک دشمن چور اور ڈاکو تک کے طعنے سہتے رہے۔ کسی میں جرأت نہ ہوئی کہ وہ پنجاب کا مقدمہ لڑتا۔ الٹا سب کچھ دوسروں کو جاتا دیکھ کر بھی چپ رہے۔
اس کا نتیجہ کیا نکلا آج پنجاب کے سابقہ حکمران اپنے لگائے زخموں اور عوامی ترقی و خوشحالی کے کاموں سے بے رخی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان گزرے 4 سالوں میں کوئی ایسا کام یا کوئی ایسا منصوبہ ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا کہ ہم اسے عمران خان یا عثمان بزدار کے کھاتے میں ڈال کر ان کی کارکردگی کا پلڑا بھاری کر سکیں۔ ہاں البتہ دشنام طرازی اور بدزبانی کا مواد کافی حد تک عوام کو ازبر ہو گیا۔ اگر عثمان بزدار کی جگہ کوئی اور جوان و توانا آواز پنجاب کی وزارت اعلیٰ پر براجمان ہوتی تو وہ کم از کم عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتی مگر شاید خان صاحب نے ایسی کسی آواز کو دبانے کے لیے ہی عثمان بزدار کو شوپیس بنا کر آگے کئے رکھا جس طرح کانگریس نے مولانا ابوالکلام آزاد کو مسلمانوں کی حمایت حاصل کرنے کے لیے شو بوائے بنائے رکھا تھا۔ اب…
گیا دور سرمایہ داری گیا
تماشہ دکھا کر مداری گیا
تو جناب اب پنجاب کی پگ مسلم لیگ (نون) کے نوجوان سیاستدان حمزہ شہباز کے سر پر رکھی جا چکی ہے۔ اس وقت وہ پنجاب میں ایک گرم اور پرجوش توانا آواز بن کر حزب اختلاف میں اپنی حیثیت منوا چکے اور لوگوں نے انہیں بطور قائد حزبِ اختلاف پسند بھی کیا۔ یوں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کے بعد شریف خاندان سے ہی ایک اور چہرہ پنجاب کی سیاست میں داخل ہوا۔ جسے چار سال اپوزیشن میں رہنے کا موقع بھی ملا اور اب وہ وزیر اعلیٰ بن کر عوام کے سامنے آئے ہیں۔ لوگوں کو ان سے بڑی توقعات ہیں امید ہے وہ ان پر پورا اتریں گے۔
میاں شہباز شریف کی بطور وزیر اعلیٰ کارکردگی دیکھنے والے ہر جگہ ہر صوبے میں ان جیسے وزیر اعلیٰ کی خواہش کرتے تھے۔ اب پنجاب میں ان کی جگہ ان کے فرزند کی حکومت بنی ہے تو وہ یہی چاہیں گے کہ حمزہ شہباز بھی اپنے والد کی طرح صوبے اور یہاں کے عوام کی بھرپور خدمت کریں۔ بے شک وقت بہت کم ہے ایک یا سوا سال میں حمزہ نے کچھ نہ کچھ کرکے دکھانا ہے۔ اس کام میں ان کے وزیر اور مشیر اگر ایماندار ہوئے تو کچھ نہ کچھ کرکے دکھا سکتے ہیں۔ اگر اس بار انہوں نے نئے باضمیر لوگوں کی جگہ پرانے پاپیوں کو ہی وزارتیں دیں تو شاید وہ کچھ بھی نہ کر پائیں گے۔ اگر کرنا بھی چاہا تو شاید نہ کر سکیں گے۔ اطلاعات کے مطابق ان کی کابینہ میں بہت سے پرانے چہرے جو قبضہ مافیا اور جرائم پیشہ مافیاز کے سر پرست ہیں۔ ان بلیک میلرز کے زیر سایہ منشیات فروشی و جوئے کے اڈے چل رہے ہیں۔ جو ٹیکس چوری اور سرکاری خزانے میں خورد برد کے مانے ہوئے کھلاڑی ہیں۔ انہیں شامل کیا جا رہا ہے تو یہ پنجاب اور یہاں کے عوام کے ساتھ نہیں خود مسلم لیگ (نون) کی حکومت کے لئے بھی اچھا شگون نہیں ہوگا۔ وزیراعلیٰ حمزہ شہباز شریف کے لئے یہ امتحان ہے کہ وہ کس طرح صوبے کی ترقی و عوام کی خوشحالی کے منصوبوں پر ایماندار وزیر اور مشیر تعینات کرتے ہیں۔
امید ہے نئے وزیراعلیٰ نہایت ایمانداری اور خلوص کے ساتھ پنجاب کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ یہاں کے عوام کو مشکلات سے نکلنے میں اپنا کردار ادا کریں گے۔ انہیں وفاق میں حکمران اپنے والد کی حکومت کی بھرپور معاونت بھی حاصل رہے گی۔ اس لئے وہ پرانی پاپیوں کو جن کے پیٹ پہلے سے بھرے ہوئے ہیں۔ مزید لوٹ مار سے دور رکھیں اور اس سوا سال کی حکومت میں اچھے لوگ سامنے لائیں تاکہ اگلے برس جب الیکشن ہوں تو عوام ازخود مسلم لیگ (نون) کو اسکی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے ووٹ دیں۔ یہی حمزہ شہبازکی سب سے بڑی کامیابی ہوگی اور پنجاب کو ان کی شکل میں ایک نیا شہباز شریف مل جائے گا۔