جی مسئلہ ہے چائلڈ میرج کا۔۔۔
آج کل الیکڑانک میڈیا، پرنٹ میڈیا،سوشل میڈیا الغرضیکہ ہر جگہ پر دعاء زہرا کیس کی چہ مگوئیاں ہو رہی ہیں۔جناب قصہ یہ ہے کہ دعاء زہرا اور ظہیر کا آن لائن گیم کے ذریعے سے رابطہ ہوا جو بعدازاں محبت میں تبدیل ہوا پھر دعا بلا سوچے سمجھے اپنے مستقبل اور والدین کی عزت کو داؤ پر لگا کر اپنے گھر کو خیر آباد کہہ کر لاہور نکاح کیلئے پہنچ گئیں اور برملا دعویٰ کیا کہ وہ بالغ ہیں اس پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا گیا۔وہ اٹھارہ برس کی ہیں جبکہ والدین کا نوحہ یہ ہے کہ وہ چودہ سال کی ہے اور کسی گینگ کی کارستانی کے سبب انکی بیٹی کا برین واش کیا گیا ہے۔ اس واقعے نے چائلڈ میرجز کے حوالے سے بہت سے سوالات کو جنم دیا ہے۔ اس کیس میں عدالت کو چاہیے تھا کہ وہ بچی کو پہلے دارلامان بھیجتے تاکہ اس پر کسی قسم کا کوئی پریشر نہ ہوتا۔ نیز لڑکی کی عمر کا تعین فوراً کرنا چاہیے تھا جس کے کئی طریقہ کار ہیں تاکہ گلی گلی کوچے کوچے میں اس کیس کی یوں جگ ہنسائی نہ ہوتی۔یہ حقیقت ہے کہ کم عمر بچیوں کی شادی ایک معاشرتی المیہ ہے اور انسانی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں لڑکیوں کو بوجھ سمجھنے کا رحجان عام ہے۔ والدین یہ بوجھ جلد از جلد اپنے سر سے اتارنا چاہتے ہیں کہیں مفلسی کے ہاتھوں، کہیں مذہب کے نام پر تو کہیں رسم و رواج کی آڑ میں معصوم بچیوں سے انکا بچپنا چھین لیا جاتا ہے۔ یونیسف کے ادارے کیمطابق کم عمر بچوں کی شادی کے حوالے سے پاکستان دنیا بھر میں چھٹے نمبر پر ہے۔بچیوں کی شادی اس وقت کی جائے جب وہ بالغ و عاقل ہوں۔ قارئین جس معاشرے میں تعلیم کا رحجان نہیں ہوتا وہاں جلدی شادی ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں دیہی علاقوں میں بچیوں کی شادی کا سلسلہ جاری ہے۔اسکے مختلف اسباب و محرکات ہیں۔ مثال کے طور پر بعض والدین گھریلو مشکلات سے دو چار ہونے کی وجہ سے خاندان کے اندر ہی بیٹیوں کیلئے مناسب جوڑ تلاش کرنا شروع کر دیتے ہیں تاکہ مستقبل میں ہونیوالے اخراجات سے سبکدوش ہو سکیں۔ کچھ لوگ آفت ذدہ علاقوں سے نقل مکانی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں یا تجارت کی غرض سے نئے علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔ اجنبی ماحول میں وہ اپنی بچیوں کو غیر محفوظ تصور کرتے ہیں۔ پس جب یہ احساس بڑھ جاتا ہے تو والدین کم عمر بچیوں کے بیاہ میں رخنہ نہیں ڈالتے۔ جن خاندانوں میں وٹے سٹے کا رواج ہے وہ بھی شادیاں بچپن میں سرانجام دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ وڈیروں میں باہمی شادیاں اس ڈر سے جلدی کر دی جاتی ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ بچیاں بالغ یا عاقل ہوکر اپنی رضامندی کا اظہار کریں گی جبکہ بچیوں کے سرپرست چاہتے ہیں کہ جائیداد ان کے خاندان کے اندر ہی گردش کرتی رہے۔ ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض والدین کم عمر بچیوں کی شادی کسی ادھیڑ عمر کے شخص کے ساتھ انجام دے دیتے ہیں۔ عمر و مزاج میں فرق ہونے کے باعث زندگی میں تلخی برقرار رہتی ہے، رویوں میں شک کے عنصر کا غلبہ رہتا ہے۔ علاوہ ازیں بڑی عمر کے شوہر کی یہ سوچ اسے غیر مطمئن رکھتی ہے کہ یہ مجھ سے چھوٹی ہے مجھے چھوڑ کر چلی جائیگی۔ اب ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ بچے ٹک ٹاک و دیگر ایپس پر فحاشی و عریانی کی متعفن تہذیب کی طرف غیر محسوس طریقے سے کچھے چلے جا رہے ہیں۔ یہ فتنہ براہ راست ٹین ایج بچے بچیوں کو گمراہ کر رہا ہے اور بچے قبل از وقت بالغ ہو رہے ہیں۔ یہ بھی مشاہدے میں ہے کہ وقت پر نکاح نہ کرنے سے ہمارے معاشرے میں بے راہ روی جنم لے رہی ہے۔ دین بھی بچیوں کی جلد شادی کا حکم دیتا ہے تو کیا 18 سال کی مقررہ عمر اور تعلیماتِ اسلامی میں ٹکراؤ نہیں آ رہا؟ قارئین اسلام دین رحمت ہے۔ اسکی تعلیمات میں انحطاط و جمود نہیں کیونکہ عصر حاضر کے پیش آمدہ مسائل کے حل لیے اجتہاد کا دروازہ کھلا ہے۔ ظاہر ہے پہلے وقتوں کی آب و ہوا صاف تھی اور خالص خوراک میسر ہونے کی وجہ سے بچیاں صحت مند اور جوان دکھائی دیتی تھیں۔ سب سے بڑھ کر مائیں،خاندان کی بزرگ خواتین اپنی بچیوں کی ٹریننگ اس انداز سے کرتی تھیں کہ انہیں اپنے تجربات سے زندگی گزارنے کا فن عنایت کرتی تھیں۔ گھرہستی پر مہارت کیسے ہو سکتی ہے، کم خرچ میں گھر کیسے چلانا ہے، کن کن مواقع پر عقل مندی کا مظاہرہ کرنا ہے وغیرہ۔ اسی تعلیم و تربیت سے بچیوں کے رویوں میں سنجیدگی پائی جاتی تھی۔ نسل در نسل اس قسم کی تعلیم و تربیت برصغیر پاک و ہند میں بھی جاری رہی۔ مگر مروجہ حالات بد سے بدترین ہوتے جا رہے ہیں۔ ماؤں کی کثیر تعداد سوشل میڈیائی مریض ہیں۔ ان کو انٹرٹینمنٹ سے فرصت ملے تو وہ اپنی بچیوں کو دیکھیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔ کیا مشاغل ہیں۔ ٹک ٹاک ویڈیوز بنا رہی ہیں کہ ہنڈیا ۔ مذکورہ بالا بحث کے تناظر میں یہی وجہ ہے کہ 18 سال کی لڑکی شاید تھوڑا زمانہ شناس ہوتے ہوئے گھر داری احسن طریقے سے سنبھال سکتی ہو۔ اچھے برے میں تمیز کر سکتی ہو۔ 18 سال کی عمر کو اس لئے بھی وجہ بنایا گیا ہو کہ اسے پڑھنا لکھنا آتا ہو اور وہ شوہر کے ساتھ معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہو سکے۔بچیوں کی رضامندی کا احترام بھی کیا جانا چاہیے لیکن پسند کی شادی کے چکر میں والدین کو دنیا بھر کے سامنے ذلیل و رسوا نہ کریں۔