نصیب اچھے ہوں تو گلے میں خدا بولتا ہے: ثمن شیخ
لاہور (کلچرل رپورٹر) نصیب اچھے ہوں تو گلوں میں خدا بولتا ہے، فن کسی کی وراثت نہیں عطا تو نصیبوں سے ہوتا ہے روحوں میں اترنے کیلئے سریلی آواز میرا مقدر بنی تو میں نے دیکھا کہ موسیقی کی جانچ رکھنے والے تو اس کے سحر میں گم ہوتے ہیں تو میں نے باقاعدہ اس سے وابستگی کرلی۔ محنت کی موسیقی کے رموز و اقاف کیلئے نامور اساتذہ کرام سے اسے سیکھا تو پھر اپنی زندگی کو مویسقی کیلیء وقف کردیا۔ ان خیالات کا اظہار معروف سنگر ثمن شیخ نے نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہم و گماں میں نہیں تھا کہ تتلیوں کو رنگ کا لباس پہنانے والی ذات مہربان ہو کر مجھے شہرت کی بلندیوں پر مقام دلائے گی، روحوں کی غذا موسیقی ایک ایسا سمندر ہے جس میں غوطہ زن ہونے کیلئے روح کی پاکیزگی درکار ہے اور اس کے اتار چڑھائو تک پہنچنے کیلئے آج بھی اپنے اساتذہ کرام کی تہہ دل سے شکر گزار ہوں۔ اگر ان کی رہنمائی میرا ساتھ نہ دیتی تو ثمن شیخ کچھ بھی نہ ہوتی۔ آج جس مقام پر ان کی دعائوں کے صدقے ہوں۔ باہر کے ممالک میں کئی ایسے بڑے کنسٹرٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرنا میرے لئے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ پاکستان میں موسیقی کے وجود کے دم توڑنے کی سب سے بڑی وجہ فنکاروں کو حکومتی سطح پر کوئی بھی مدد کی اہمیت نہیں دی جاتی اگر حکومت نئے اور پرانے گلوکاروں کے والے سے کوئی ایسے پروگراموں کا آغاز کرے تو بہت سے نئے گانے والے موسیقی کے میدان میں پاکستان کا نام روشن کرنے کا باعث بنیں۔ ہمارا فن ہمارا وجود ہمارا وقار ہماری عزت پاکستان کی وجہ سے ہے ۔ فخر ہے جس کی نمائندگی کرنا اور فن کو اجاگر کرنے کیلئے رخت سفر باندھنا اور عزتوں کے ہار کو گلے میں ڈالنا میرے لئے بہت بڑا اعزاز ہے۔