جب ایوب خان نے اقتدار سنبھالا
یہ بڑااہم اور سلگتا ہوا موضوع ہے ۔چونکہ اس کی حساسیت بھی بہت ہے لہذا کوشش ہوگی کہ کوئی غیر مستند حوالہ کالم میں شامل نہ ہواور نہ ہی غیرضروری طورپر کوئی تبصرہ شامل کیاجائے۔میری ان معلومات کابہت بڑا ماخذ اصغرخاں کی تصنیف"جرنیل سیاست میں"ہے ۔ اصغرخاں اپنی ذاتی زندگی میں بلاکے دیانتدارتو تھے ہی مگر مذکورہ کتاب لکھتے وقت بھی انہوں نے دیانت احتیاط اور حالات وواقعات کی صحت اوراپنی تحریر کو بلاوجہ ہیجان خیزی سے محفوظ رکھ کرایک نہائت مستند دستاویز قوم کے حوالے کی ہے۔اگرچہ کتاب کو طبع ہوئے بھی35سال سے زائد کاعرصہ ہوچکا ہے مگر جس موضوع پر انہوں نے لکھا ہے وہ ابھی تک تازہ ہے۔ اسکے علاوہ آغاشورش کاشمیری کی سابق وزیر اعظم پاکستان حسین شہید سہروردی پر لکھی سوانح عمری ہے ۔ آخر میں کچھ مواد جماعت اسلامی اور"پاکستان قومی اتحاد"کے جنرل سیکرٹری پروفیسر غفور کے تصنیف"پھر مارشل لاء آگیا"سے لیاہے ۔یہ تینوں ہستیاں اب دنیا میں نہیں مگر کالم میں آپ کوموجود ملیں گی۔خوش قسمتی سے تینوں کتابیں میری لائبریری میں مخفوظ ہیںاور مجھے اصغرخاں کے ساتھ جدوجہد میں حصہ لیتے ہوئے ربع صدی گذری بلکہ ان کی مذکورہ کتاب کوچھپوانے کیلئے مجھے ،عمراصغرخاںاور دیگران کوبہت مشکل مراحل سے بھی گذرنا پڑا۔ آغاشورش کی مجلسوں اورمحفلوں میں بھی اکثر وپیشتر بیٹھنے کااتفاق ہواجس سے ان کی لکھی ہوئی تمام کتابوں کوپڑھنے کاشوق بھی پیدا ہوا اور اس طرح انکی تصنیف"حسین شہید سہروردی"بھی مکمل دلچسپی سے پڑھی ۔اسکی خاص بات وہ تمام حالات ہیں جوایوب خاں کے مارشل لاء کے نفاذ سے قبل سیاسی طورپر پیداہوچکے تھے جن کاذکر آگے آئیگااگرچہ پروفیسر غفور سے کوئی زیادہ تعلق تونہ رہا مگر ان کی تصنیف"پھرمارشل لاء آگیا"خاصے کی چیز اس لئے ہے کہ اس میں مجھے کوئی جھول یاتعصب نظر نہیں آیا۔واقعاتی انداز یاڈائری نما انداز فکرہے۔سکندر مرزا ہمارے ملک کی تاریخ کا شاطر ترین، حب جاہ رکھنے والا اورملکی استحکام کوزیر وزبر کرنیوالا حکمران تھا۔پاکستان کے سیاسی نظام کواپنے مکروہ عزائم کی خاطر اس نے کبھی مستحکم نہیں ہونے دیا۔ سیاست کوسرکس بناکر رکھ دیا۔اسکے جرائم کااندازہ اس سے کیاجاسکتا ہے کہ جب ایوب خاں نے مارشل لاء نافذکرکے اسے اس کی اہلیہ سمیت گرفتار کیا تو آغاشورش سے بھی نہ رہا گیااورانہوں نے اسے ایک مستحن کارنامہ قرار دیابلکہ آغاصاحب لکھتے ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناح نے بھی اس زمانے میں اسے سراہا ( ملاحظہ کیجیے شورش کاشمیری کی کتاب ’’ حسین شہید سہروردی ‘‘ صفحہ 106)۔
قارئین آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ سکندرمرزانے حالات کوکس قدر تباہی تک پہنچا دیاہوگا کہ ایسے لوگوں نے بھی مارشل لاء کوخوش آمدید کہا۔(آج بہرحال ملک میں ایسے حالات نہیں ہیں) ۔یہاں میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کرتاچلوں کہ مارشل لاء کے نفاذ کے بعد جب پاک فضائیہ کے سربراہ اصغر خاں صدر ایوب سے ملے تو انہوں نے پوچھا کہ جناب صدر آپ نے کب مارشل لاء کے نفاذ کافیصلہ کیاتو ایوب خاں نے انہیں بتایا کہ دراصل سکندرمرزا کووزرائے اعظم کو پلک جھپکتے فارغ کرنے کی عادت ہوچکی تھی۔ خدشہ تھا کہ وہ کسی لمحے میں مجھے بھی فارغ نہ کردے ۔ادھر سکندر مرزا کایہ حال تھاکہ اسے بھی ایوب خاں کی اس طاقت سے خوف آنے لگاتھا جوخود اس نے اسے مارشل لاء ایڈ منسٹریٹرکی حیثیت سے تفویض کی تھیں۔گویا دونوں طرف ہرکوئی پہل کرکے اس بے یقینی سے نکلنا چاہتا تھا۔ میرے ایک گذشتہ کالم"یحیٰ خاں"میں اس واقعہ کا تفصیل سے ذکر موجود ہے۔پہل کرنے میں مگر دونوں ہچکچاہٹ محسوس کرتے تھے۔ایوب خاں نے بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ائیرمارشل کوبتایا کہ چند دن پہلے ڈھاکہ میں فوج کاایک "بڑاکھانا" تھا۔ افسران پلٹیں لئے ادھرادھرآجارہے تھے کہ ایک کیپٹن رینک کے افسرنے انکے قریب آکرکہاکہ "جناب آپ کوکوئی خبر ملی ہے"ایوب خاں کاکہناتھاکہ نوجوان افسر کایہ کہناان کوبہت کچھ سوچنے پر مجبورکرگیا۔یک دم میراذہن صرف اسی طرف گیا کہ سکندرمرزا نے انہیں معزول کردیاہوگا۔مگر عہدے کا فرق حائل ہورہا تھا یا کچھ ژ اور ،ورنہ میرابس چلتا تواسی وقت نوجوان کیپٹن کو بلاکراس دھماکہ خیز مگرادھوری خبرکی بابت ضرور دریافت کرتا۔ ایوب خاںنے بات جاری رکھتے ہوئے اصغر خاں کو بتلایا کہ کچھ وقت کے بعد وہی کیپٹن پھرکہیں سے گھومتا گھماتا کھانا کھاتاہواانکے قریب سے گذرا اور بتایا کہ"برمامیں فوج نے ملک پر قبضہ کرلیاہے"بس یہی وہ لمحہ تھاجب میںنے فیصلہ کرلیاکہ کراچی واپس پہنچتے ہی سکندرمرزا کوفارغ کردوں گا۔ایوب خاں کراچی واپس پہنچا تو جنرل اعظم خاں، جنرل برکی ،جنرل بختیاررانا اور فضائیہ کے کموڈورمقبول رب کواپنے ہاں بلایا اور انہیں اعتمادمیں لیا کہ کسی طرح سکندرمرزا سے استعفیٰ حاصل کریں۔یہ تینوںجرنیل وزیر اعظم ہائوس گئے۔سکندرمرزا نے بالکونی سے انہیں دیکھا اور وہیں کھڑے کھڑے ان جرنیلوںسے پوچھا کہ کیا میرا استعفیٰ لائے ہو؟جناب مجبوری تھی، غالباجنرل اعظم نے کہا اور یوں لمحہ بھر میں مکر کے جالوں سے بنا ہوا وہ صدر پاکستان جس نے ملک کو باز بچہ اطفال بنا کے رکھ دیا تھااور جس کے دورمیں ایوان صدر قمارخانہ بنا رہا، اب جرنیلوں کے رحم وکرم پر تھا جنہوں نے اسے اہلیہ سمیت پہلے کوئٹہ اور اگلی دستیاب پرواز کے ذریعے لندن پہنچادیا۔ایوب خاں نے کہا کہ اصغرخاں مجھے یہ تو معلوم تھا کہ سکندر مرزا ایک بزدل آدمی ہے مگر یہ نہیں معلوم تھا کہ یہ اتنا آسان کام ہوگا۔سکندر مرزا کے حق میں کیا کوئی آواز بلند ہونا تھی فاطمہ جناح جیسی خاتون نے بھی اسے سراہا اور آغاشورش جیسے دبنگ اور حریت پسند صحافی ،سیاستدان اور عوامی مقرر نے بھی۔اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایوب خاں کے اقتدار سنبھالتے وقت ملک کے کیا حالات تھے۔