بجٹ سے آگے جہاں اور بھی ہیں!!!!!
متحدہ حکومت کے لیے بجٹ پیش کرنا مشکل مرحلہ تھا یہ کام تو ہوا اس سے پہلے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بھی مشکل فیصلہ تھا متحدہ حکومت نے یہ کام بھی کر لیا، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا جہاں جہاں سے حکومت کو مدد یا قرض کی امید ہے وہ امید پوری ہوتی ہے یا نہیں اگر متحدہ حکومت کو وہ سب کچھ مل جاتا ہے جس کے لیے کوششیں ہو رہی ہیں تو پھر غیر یقینی صورتحال میں کمی کا واضح امکان موجود ہے۔ معاشی عدم استحکام کی وجہ سے ہر شہری پریشانی کا شکار ہے، کاروباری طبقہ سب سے زیادہ پریشان ہے۔ موجودہ حالات میں فیصلہ سازوں کو مل بیٹھنے کی ضرورت ہے۔ گوکہ یہ ملک کی ضرورت ہے لیکن اس کے باوجود کوئی ایسا نہیں کرے گا۔ یہاں سب کی سیاست، سب کے ذاتی مفادات و اختلافات ملک و قوم سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ بہرحال جہاں تک بجٹ کا تعلق ہے اس حوالے سے ہمیشہ متضاد رائے ہی سامنے آتی ہے۔ حکومت مخالف جماعتوں نے ہمیشہ بجٹ کو مسترد ہی کیا ہے۔ عام آدمی کے لیے بجٹ ہمیشہ اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ ہی رہا ہے کیونکہ غریب کو کبھی سکون نہیں ملتا، نہ کوئی بجٹ اس کے لیے بہتر کھانے کا سامان کرتا ہے، نہ کوئی بجٹ غریب کے لیے بہتر نیند کا سامان کرتا ہے، نہ کوئی بجٹ غریب کے لیے بہتر سفر کا سامان کرتا ہے، نہ کوئی بجٹ غریب کے لیے بہتر علاج کا سامان کرتا ہے، نہ کوئی بجٹ غریب کے لیے بہتر تعلیم کا سامان کرتا ہے۔ ہر حکومت یہی نعرہ لگاتی ہے کہ بجٹ عام آدمی کے لیے بنایا گیا ہے لیکن کوئی غریب کبھی بجٹ سے فیض یاب یا مستفید نہیں ہوا، کسی بھی بجٹ نے کبھی کسی غریب کی زندگی نہیں بدلی۔ عام آدمی کے لیے بجٹ بیک وقت کامیڈی فلم یا پھر نمک کی طرح ہوتا ہے کیونکہ بجٹ کی خبریں سن کر یا پڑھ کر عام آدمی یا تو بے اختیار ہنستا ہے یا پھر اس زخمی کی طرح روتا ہے جس کے زخموں پر نمک چھڑکا جائے اور تڑپتا رہے۔
بہرحال حکمرانوں کو عام آدمی بجٹ کے بہانے یاد ضرور رہتا ہے کیونکہ سارے اعدادوشمار اس عام آدمی کے نام پر بنائے جاتے ہیں جسے کچھ حاصل نہیں ہونا۔ یعنی عام آدمی کے لئے بجٹ اس چراغ کی طرح ہے جس کی روشنی سے اس کے سوا سب فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ بجٹ پیش کر کے شاید یہ سمجھے کہ اس کی ذمہ داری پوری ہو گئی ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد جہاں اور بھی ہیں ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں۔ بلکہ اصل امتحان تو اب شروع ہوا ہے جون ہے آخری ہفتے یا پھر جولائی کے وسط تک اگر وہ کام نہ ہوا جس کی امید ہے تو کیا پھر کوئی سیاسی ہلچل پیدا ہو گی۔ متحدہ حکومت کے لیے آنے والا وقت آسان نہیں ہے کیونکہ پارلیمنٹ میں ہر وقت ایسے لوگ موجود رہتے ہیں جو کسی نہ کسی کی آنکھ پر نگاہ رکھے ہوتے ہیں۔ کہیں سے آنکھ کا اشارہ ہوتا ہے اور وہ بنچ تبدیل کرنے کے لیے پرتولنے لگتے ہیں۔ بجٹ پیش کرنے کے بعد کیا حکومت ایسے اراکینِ قومی اسمبلی کو روکنے میں کامیاب ہو سکے گی یا یہ خطرہ ہر وقت متحدہ حکومت کے سروں پر منڈلاتا رہے گا۔
بجٹ میں چھوٹے ریٹیلرز پر فکسڈ ٹیکس، خام مال کی درآمد پر ایڈجسٹ ایبل ودہولڈنگ ٹیکس،مقامی و امپورٹڈ سولرپینلز پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ، ٹریکٹرز ، زرعی آلات، گندم، کینولا اور دیگر اناج کے لیے سیلز ٹیکس کی واپسی اچھے اقدام ہیں۔ یہ بجٹ بھی خسارے کا ہے اور اس خسارے سے نکلنے کا کوئی طریقہ موجودہ حکومت بتانے میں ناکام رہی ہے۔ اگر حکومت قرض کا راستہ اختیار کرتی ہے تو کیا یہ فیصلہ معیشت کے لیے نقصان دہ ثابت نہیں ہو گا۔ حکومت نے سات سو ارب روپے سے زائد ٹیکس ریونیو مقرر کیا ہے البتہ یہ واضح نہیں کہ اس کے لیے نئے ذرائع تلاش کیے جائیں گے یا موجودہ ٹیکس دہندگان پر ہی مزید بوجھ ڈالا جائے گا۔ چونکہ ٹیکس اہداف میں اضافہ کیا گیا ہے اس لیے ان ڈائریکٹ ٹیکس لگ سکتے ہیں۔ جائیداد کی منتقلی پر ودہولڈنگ ٹیکس سے مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے۔ فارماسیوٹیکل سیکٹر کے حوالے سے دو درجن سے زائد اجزا پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ اچھا قدم ہے، دیگر صنعتوں کے خام مال پر بھی ریگولیٹری ڈیوٹی ختم کرنے سے معاملات میں بہتری کا امکان ہے۔ سیڈ پر سیلز ٹیکس کا خاتمہ خوش آئند ہے جبکہ فکس ٹیکس کی حکمتِ عملی سے زیادہ سے زیادہ لوگ ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جا سکتا ہے۔ سولر پر بھی سیلز ٹیکس ختم کرنا خوش آئند ہے۔ حکومت کو توانائی کے متبادل ذرائع کی حوصلہ افزائی کرنے کی ضرورت ہے۔ایگرکلچرمشینری پر کسٹم ڈیوٹی کے خاتمے اور موٹر وہیکل کی امپورٹ پر مکمل پابندی معیشت کے لئے بہتر ثابت ہو سکتی ہے۔ اپنی مارکیٹ کو بہتر بنانے، مقامی اشیاء پر توجہ اور اس کے معیار کو بہتر بنانے پر توجہ دی جائے تو بہتری کا امکان ہے۔ یہ مسائل ہمارے پیدا کردہ ہیں اور ان مسائل کا حل بھی ہم نے ہی کرنا ہے۔ حکومت کو یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا کہ کب تک ہم امداد اور قرضوں کے ذریعے مشکلات سے نکلتے رہیں گے۔ حکمرانوں کو کفایت شعاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہر سطح پر ایسے اقدامات کی ضرورت ہے کہ ہم بتدریج مرحلہ وار خود مختاری کی طرف جائیں، بیرونی دباؤ سے نکلیں، اپنے اخراجات کم کریں، پیسہ باہر بھیجنے کے بجائے اپنی مصنوعات کے استعمال کی عادت بنائیں۔ ہر وقت دوست ممالک یا عالمی اداروں کی طرف دیکھنا مسئلے کا حل ہرگز نہیں ہے۔