• news
  • image

 بجٹ کا بھلا برا 


بجٹ آ گیا اور خیر سے سمجھنے والوں نے سمجھ بھی لیا کہ اس میں کیا ہے اور کیا نہیں ہے البتہ ہم جیسے ناسمجھ ابھی تک یہ سمجھ نہیں پائے کہ یہ اچھا ہے یا برا‘ البتہ  کیا اچھی بات جو پتہ چلی وہ یہ ہے کہ اگرچہ غریبوں کو کوئی ریلیف نہیں  دیا گیا۔ لیکن ان سے مزید چھینا  بھی نہیں گیا ۔یعنی انہیں یہ کہہ کر ’’معاف کر دیا  کر دیا گیا کہ میاں جہاں بھی رہو‘ خوش رہو۔ رہی کنوئیں والی مثال کہ ایک راہگیر اس میں جا گرا اور مدد کیلئے چلانے لگا۔ ایک سست ادھر سے گزرا‘ چیخیں سن کر بولا کون ہو یہاں‘ کہاں سے بول رہا ہوں‘ آنے والا بولا‘ میں یہاں ہوں‘ کنویں میں‘ سست نے کہا اچھا یہاں جہاں بھی ہو خوش رہو اور چل دیا۔ وہ سست تھا‘ بدمست نہیں۔ ورنہ دو چار اینٹ روڑے کنویں میں پھینک سکتا تھا کہ یہ لو میاں میری طرف سے تحفہ۔ 
………………………
ملازموں کو البتہ دو ریلیف ملے ہیں یعنی تنخواہ میں 15 فیصد اضافہ اور ایک لاکھ روپے تک کی تنخواہ پر ٹیکس کی چھوٹ‘ ماضی قریب (یعنی وہ زمانہ جو 2018ء کی آخر تک موجود تھا  بڑھیں ایک لاکھ معقول تنخواہ سمجھی جانی تھی۔ پھر یہ ہوا کہ خان صاحب کی حکومت آ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے ایک لاکھ کمانے والے ’’غریب‘‘ قرار پانے اور 50 ہزار کمانے والے بھوکوں اور ننگوں والی کیٹیگری میں ڈال دیئے گئے۔ لیکن خان صاحب کہ غریبوں پر لطف و کرم فرمانے کے حد سے زیادہ شوقین تھے‘ 50 ہزار والوں کو بھی ٹیکس کی مد میں لے آئے تنخواہ گھٹ کر 45 ہزار رہ گئی۔ بجلی مہنگی کی‘ دس ہزار نکل گئے‘ تنخواہ کم ہوکر 35 ہزار رہ گئی۔ دفتر آنے جانے کے کرائے بڑھ گئے۔ تنخواہ کم ہو کر 30 ہزار رہ گئی‘ دودھ‘ دوائیں‘ سبزی والی اور گھی مہنگے ہو گئے‘ تنخواہ مزید کم ہو ئی‘ اتنی کہ صفر کی حدود میں داخل ہو گئی جس کے بعد خان صاحب نے یہ شکوہ ہفتہ واری  تکیہ کلام بنا کر شروع کر دیا کہ قوم ٹیکس نہیں دیتی‘ قوم ٹیکس چور ہے‘ کسی چور کو نہیں چھوڑوں گا۔
…………………………………
خان صاحب مراعات یافتہ طبقے کا لحاظ کرتے تھے‘ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ خان صاحب کی تہذیب میں لحاظ داری اور مراعات لازمی حصہ تھی چنانچہ ان کے دور میں مراعات کی بدلیاں انہی بدلیاں انہی پر برستی تھیں جو پہلے سے مراعات تھی۔ پاکستان اکنامک سروے کی تازہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پی ٹی آئی حکومت نے امیر طبقے کو 52 کھرب کی ٹیکس رعایت دیں۔ صرف ایک سال کے عرصہ میں ان رعایات میں 34 فیصد کا اضافہ ہوا۔ بات اصول کی تھی۔ اصول یہ تھا کہ گھی اسی کو دیا جائے جو ہضم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ غیر مراعات یافتہ اور غریب عوام کا ہاضمہ  تو سرے سے موجود ہی  نہیں  سو جتنا زیادہ ’’اچھا ہاضمہ‘‘ اتنا زیادہ گھی‘ خاں صاحب  نے یہی اصول ووٹ کی بابت نافذ کرنے کیلئے فضا بنانے کی کوشش بھی کی تھی کوئی صدارتی نظام اور ’’اہل افراد‘‘ ووٹ دینے کا حق وغیرہ کے بارے میں ایک مہم چلی۔ یہ مہم چلی تو بڑے زور سے تھی لیکن پھر وہی ہوا کہ حیرت اس ’’غنچے‘‘  پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گیا‘ نہ وہ ساقی رہا نہ وہ قدح وجام‘ امریکی سازش نے خان صاحب کا بوریا بستر گول کر دیا اور چور ڈاکوؤں کی حکومت آ گئی۔ 
…………………
بہرحال وزیراعظم شہبازشریف نے وعدہ کیا تھا کہ اب قربانیاں بڑے لوگ دیں گے، غریبوں سے مزید قربانی نہیں لی جائے گی۔ خیال تھا کہ اس وعدے پر عملدرآمد بجٹ سے شروع ہو گا لیکن بجٹ میں بڑے لوگوں سے قربانی لینے کا کچھ خاص سراغ نہیں ملا۔ ممکن ہے یہ قربانی خفیہ ہی خفیہ لے لی گئی ہوں۔
مراعات یافتہ ایک تو وہ ہے جن کے بڑے بڑے کاروبار کارخانے اور زمیندار ہیں اور ایک، تنخواہ دار ’’افسر‘‘ ہے جسے بھاری تنخواہ بھی ملتی ہے، مفت تیل، مفت بجلی وغیرہ ہی ہیں، مختلف قسم کی ’’خدمات‘‘ کیلئے بھی سرکار اپنے پلے سے دیتی ہے۔سو سو کنال کے گھر، جن کا کرایہ بھی کروڑ روپے سے زیادہ بنتا ہے، ان افسران کو ملے ہوتے ہیں۔ پھر ان گھروں میں رکھے گئے چوکیدار، مالی، باورچی، ڈرائیورسب کا خرچہ بھی سرکار اٹھاتی ہے۔ لان کی گھاس کاٹنے کا خرچہ بھی حکومت کے ذمے اور پھر نئی گھاس لگانے کا خرچہ بھی انہی کے ذمے۔
سنا ہے کہ تیل کی مد میں کوئی 40 فیصد کٹوتی کی گئی ہے۔ ابھی تک اس واحد قربانی کے سوا کسی اور قربانی کی خبر نہیں آئی، اس کا ازالہ بھی ان کی تنخواہوں میں دس فیصد کر کے کر دیا گیا ہے۔ صنعتی اور تجارتی تنظیموں، چیمبرز آف کامرس وغیرہ کی طرف سے بجٹ کو اچھا قرار دیا گیا ہے۔ چلیئے کم سے کم کاروبار کا بھلا تو ہو گا کہ اس نچلے سے  نیچے بہت سے چھوٹے چھوٹے بھلے بھی جڑے ہوتے ہیں۔ دور عمران میں غریب کا کچومڑ تو نکلا ہی تھا، کاروبار والوں کا بھی بھرکس بھی ساتھ ہی نکلا تھا۔ آئی ایم ایف کے ساتھ ایسے معاہدے کئے گئے کہ پرویز مشرف کی یاد آ گئی۔ امریکہ نے دہشت گرد جنگ میں ساتھ دینے کیلئے اس مطالبات کئے اشرف نے ان میں سے پیکر رومان لئے۔ یعنی جو مطالبات امریکہ نے نہیں کئے تھے، وہ بھی مان لئے۔ عمران خان نے بھی آئی ایم ایف کے ساتھ السوی ہی معاملہ نبوی کی اور اس معاملہ نبوی کے نتیجے میں سارا ملک اور ساری قوم ’’بندی خانے‘‘ میں چلی گئی۔
وفاقی وزیر خورشید شاہ نے کہا تھا کہ گھی کے بیجوں پر ٹیکس ہٹا لیا جائے گا۔ بجٹ میں یہ بات نظر نہیں آئی۔ چنانچہ بجٹ آتے ہی تھی مزید 15 سے 20 روپے کلو مہنگا ہو گیا ہے۔ خورشید شاہ صاحب، ڈیزل میں کیمیکل، سستا سا ملا کر اسے خوردنی تیل کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے؟
وفاقی وزیر خواجہ آصف نے فرمایا ہے کہ پرویز مشرف کو وقار کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق ہے۔
وقار سے کیا مراد ہے‘ جسٹس وقار سیٹھ تو مشرف کے ساتھ ’’انصاف‘‘ کرنے کی پاداش میں اس دنیا سے ہی رخصت کر دیئے گئے تھے۔  آپ کی مراد عزت و وقار والے وقار سے ہے تو پھر آپ پی ڈی ایم میں کیا  کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف موجود ہے۔ وہاں پردھاریئے اور ثواب  دارین سے جھولیاں بھر لیجئے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن