جمہوریت کی بالادستی اور اخباری صنعت
’’جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے‘‘ یہ جملہ اُس وقت زبان زدعام ہوا جب محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی زبان سے پہلی بار ایک پریس کانفرنس کے اختتام پر ادا ہوا۔ تو کیا واقعی جمہوریت بہترین انتقام ہے؟۔ موجودہ دنوں میں مہنگائی ، بڑھتی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں اور ملک میں پھیلی سیاسی افراتفری کو دیکھ کر تو یہی لگ رہا ہے کہ شاید جمہوریت ہی میں عوام سے انتقام لیا جا رہا ہے۔ اس بات کو اب شدت سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام بہت ضروری ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ سبھی سٹیک ہولڈرز یعنی سیاسی جماعتیں مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی ، پی ٹی آئی، جے یو آئی ف ، مسلم لیگ ق ، جماعت اسلامی، ایم کیو ایم، اے این پی ، بی این پی، بی اے پی سمیت ملکر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہوں اور ملکی استحکام کے لیے کوشش کریں۔ تمام سیاسی اختلافات کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے تو اس کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف ’’سیاسی گرینڈ ڈائیلاگ‘‘ کی بات کر چکے ہیں اس میں اب یہ بات اہم ہے کہ اس میں پہلا قدم کون اٹھاتا ہے کیونکہ کسی منزل پر پہنچنے کیلئے پہلا قدم ہی ہمت سے اٹھایا جا سکتا ہے تو ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے شہباز شریف یقینا حوصلہ کر چکے ہیں تو باقی جماعتوں عمران خان، آصف علی زرداری، چودھری شجاعت حسین، چودھری پرویز الٰہی اور مولانا فضل الرحمن حوصلہ کریں اور ایک ٹیبل پر بیٹھ کر ملکی مسائل کو حل کرنے کیلئے سرجوڑ لیں۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ ہمیں اس بات پر عمل کرنا ہو گا کیونکہ اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں کیونکہ ملک دیوالیہ ہونے والی باتوں کی تقویت سے پہلے اس پر کام کر لیا جائے، ویسے بھی سیاسی جماعتوں کے افراد ایک دوسرے کی غمی اور خوشیوں میں اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ شادیوں میں ایک ٹیبل پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں تو ملک کی عوام جس کے لیے یہ سیاست کر رہے ہیں تو اس کے لیے ’’انا پرستی‘‘ رکھنا یہ سمجھ سے باہر ہے۔ اس رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لیے سیاست دان خود سے کام شروع کریں وفاق کا بجٹ تو پیش ہو گیا اور پنجاب سمیت دیگر صوبوں کا بجٹ بھی پیش ہو چکا ہے تو کیا یہ ضروری نہیں کہ ایک دوسرے پر طعنے کے نشتر چلانے کی بجائے بڑا حوصلہ کریں اور ایک دوسرے کو گلے لگا لیں۔ اس کے لیے پاکستان کے میڈیا کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا خصوصاً پرنٹ میڈیا کو۔ پاکستان کی اخبارات کی صنعت جو کئی حوالوں سے مشکلات کا شکار ہے، ادائیگیوں کا مسئلہ، بڑھتے ہوئے کاغذ کے نرخ، اشتہارات کی پابندیاں، بجلی کے بلوں پر سبسڈی نہ ہونے، سمیت دیگر ٹیکسز کی بھرمار نے پاکستانی اخبارات کی انڈسٹری کو مسائل میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جمہوریت کی بالادستی کیلئے جتنا اہم کردار اس ملک کی اخباری صنعت نے ادا کیا ہے اس کی اہمیت سے کوئی انکار نہیں کر سکتا، اس کے لیے صحافیوں کو سزائوں کا سامنا بھی کرنا پڑا ہے۔ اخبار کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا اس کی وجہ یہ ہے کہ حکام بالا تک مسائل کی نشاندہی کا ذریعہ اخبارات ہی بنتے ہیں اور رائے عامہ بھی ہموار کرتے ہیں تو اس اہم پل کو مضبوط کرنے کی بھی ضرورت ہے اور اس انڈسٹری کے مسائل کو حل کرنے کی بھی فوری ضرورت ہے۔ پاکستانی اخبارات کی ایڈیٹرز کی تنظیم کونسل آف پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹر (سی پی این ای) کا اجلاس صدر سی پی این ای کاظم خان کی زیر صدارت ہوا۔ اجلاس میں پنجاب سے نکلنے والے اخبارات کے مسائل پر سیرحاصل بحث ہوئی۔ سی پی این ای کے رکن جمیل اطہر قاضی عرفان اطہر قاضی بھی خصوصی شریک ہوئے، پنجاب حکومت کے نمائندہ کے طور پر ملک محمد احمد خان اور حنا پرویز بٹ نے شرکت کی۔ سیکرٹری اطلاعات اور ڈی جی پی آر راجہ منصور احمد نے بڑی توجہ سے سی پی این ای پنجاب کے مسائل سنے اور انہیں یقین دلایا کہ مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہونگے۔ راجہ منصور احمد جو ایک پروفیشنل بیوروکریٹ ہیں ان کے متعلق یہ رائے عام ہے کہ وہ روایتی طریقوں کی بجائے عملی کام پر یقین رکھنے والے افسر ہیں اور پنجاب حکومت نے انہیں بھاری ذمہ داری اسی وجہ سے سونپی ہے کہ وہ تمام مسائل کا حل ڈھونڈیں اور اس انڈسٹری کیلئے کام کریں گے۔ انہوں نے تمام تجاویز کو سنا اور لکھا اور اپنے تعاون کا مکمل یقین دلایا۔ ڈی جی پریس انفارمیشن ڈیپارٹمنٹ سجیلا نوید نے سی پی این ای کو مکمل تعاون کی یقین دہانی کروائی اور کہا کہ وہ تمام مسائل کو حل کریں گی۔ ان کا یہ کہنا تھا کہ وہ خود تمام ممبران سے رابطے میں رہتی ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ اخبارات کو ادائیگیاں بروقت کی جائیں تاکہ کوئی مسائل سامنے نہ آئیں۔ جمیل اطہر قاضی نے تمام شرکاء کو بتایا کہ سی پی این ای کی کوششوں سے 15/85 کا عمل پی آئی ڈی میں شروع ہوا جو سی پی این ای کی کاوش تھی۔ پنجاب کے نائب صدر ارشاد احمد عارف نے تجویز دی کہ ڈی جی پی آر کے مواد کو کمپیوٹرائزڈ کیا جانا چاہیے تاکہ آسانی سے کام ہو۔ مرکزی نائب صدر ایاز خان نے تجویز دی کہ بی این آر اور ریگولیٹری سرٹیفکیٹ کے معاملات کو فوری حل کیا جانا چاہیے۔ ذوالفقار راحت نے اور جوائنٹ سیکرٹری ضیاء تنولی نے کہا کہ اخباری صنعت کے مسائل کے حل کے لیے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ سابقہ مسائل ختم ہوں۔ سی پی این ای کے صدر کاظم خان نے حکومتی نمائندوں کی توجہ اس طرف دلوائی انہوں نے حکومت پنجاب سے مطالبہ کیا کہ ہمیں پنجاب کے اندر سی پی این ای کے لیے کوئی جگہ مختص کی جائے۔ ملک محمد احمد خان نے یقین دلایا کہ وہ پرنٹ میڈیا اور حکومت کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتے رہیں گے ۔حنا پرویز بٹ نے بھی یقین دلایا کہ وہ مسائل کو حل کروائیں گی ہمیں پرنٹ میڈیا کے تمام مسائل کا اندازہ ہے ہم سابقہ حکومت کی روش پر نہیں چلیں گے بلکہ میڈیا فرینڈلی ماحول بنائیں گے کیونکہ میڈیا کے ذریعے ہمیں اپنی کوتاہیاں ٹھیک کرنے کا موقع ملتا ہے۔