جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
دنیا میں سب سے مہنگی چیز بھروسہ ہے جسے بنانے میں عمر بیت جاتی ہے اور گنوانے میں چند سیکنڈ لگتے ہیں۔ اس میں شک کی ذرا گنجائش نہیں ہے کہ جب غلامی ذہن میں بیٹھ جائے تو اپنی طاقت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ دنیا میں صبر کا پھر میٹھا ہے جس نے کھایا دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی عزتیں پائیں جبکہ بے صبری کا پھل کھاکر ضرورت سے زیادہ اور وقت سے پہلے خواہشات نفسانی کی طلب نے انسانیت کو بربادی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ آج ایٹمی پاکستان اپنے انتہائی مشکل دور سے گزر رہا ہے پاکستانی قوم کو سیاست اور مہنگائی کے چنگل میں پھنسا دیا گیا ہے تاکہ اصل ایشوز کی طرف سے ان کی توجہ ہی ہٹ جائے۔ سیاستدان ایک دوسرے سے اتنے خائف ہو گئے ہیں کہ وہ پاکستان کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے بے خبری میں نئے زخم لگاتے جا رہے ہیں ۔ پاکستان میں سیاسی اتحاد بنتے رہے مگر جتنا غیر فطری اتحاد آج بنا ہے میں بحیثیت سیاسی کارکن اس کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ عمران خان کی ذاتی اور سیاسی دشمنی میں بننے والا یہ اتحاد کتنا غیر فطری ہے سارے اتحادیوں بخوبی علم ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا اپنا ایجنڈا ہے پاکستان مسلم لیگ "ن"اور پیپلز پارٹی دونوں کے اپنے اپنے نظریات ہیں جن میں زمین آسمان کا فرق ہے بلکہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت میں جماعتیں بنیں۔میں شہباز شریف صاحب کو جانتا ہو ں اور ان کے دل میں پیپلز پارٹی کیلئے نفرت کو بھی ۔ حکومت کی تبدیلی کیلئے کچھ مہینوں سے کام ہو رہا تھا۔ ہر چیز فائنل ہو چکی تھی اور یہ ہونا ہی تھا اس کی اپنی بیک گرائونڈز تھیں اور ان میں سب سے بڑا الزام جو پی ٹی آئی حکومت پر لگاوہ ان کی نا اہلی کا تھا اور عثمان بزدار صاحب کی تبدیلی کسی نہ کسی کی خواہش ضرور تھی جس کو عمران خان صاحب نے ماننے سے انکار ہی نہیں کیا بلکہ وسیم اکرم پلس کا خطاب بھی دے دیا ۔ بالآخر پی ٹی آئی کے لئے وجہ بربادیء گلشن عثمان بزدار ہی بنا اور سب کو ساتھ لے کر گیا۔ محبت کا عالم یہ ہے کہ آج بھی بزدار سٹیجوں کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہا ہے۔ جب عمران خان صاحب پنجاب کے فیصلوں کیلئے انٹرویو کر رہے تھے تو ان میں عثمان بزدار صاحب بھی تھے دوران انٹر ویو انھوں نے شاید اپنے علاقے میں بجلی وغیرہ کیلئے بات کی اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ چیف منسٹر کا تاج اس کے لیے منتظر ہے۔ عثمان بزدار صاحب کے والد میرے ساتھ اسمبلی میں تھے۔ انتہائی شریف النفس سردار تھے ۔ میرے پاس ہمیشہ اپنے علاقے کے کام لیکر آتے سچی بات ہے کہ ان کی شرافت اور خاموشی مجھے اچھی لگتی تھی ۔
میں ہمیشہ سوچتا ہوں کہ سارے ذمہ داران چمن ملک کر پاکستان کو لگی ہوئی اندورونی اور بیرونی سازشوں کی آگ بجھانے سے کیوں کترا رہے ہیں انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ ملک و قوم سلامت رہے گی تو تمھیں اقتدار کے مواقع ملتے رہیں گے ۔ پاکستان سیاسی غلطیوں کی وجہ سے آج دیوالیہ ہونے کے اندیشے سے نبرد آزما ہے۔ غریب کا جینا محال ہے لوگ اپنے بچوں کا مستقبل تاریک ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔کیا آج ہم سسکتے ہوئے پاکستان اور منڈلاتے ہوئے گدھوں کو نہیں دیکھ رہے جو کلمہء طیبہ اور ایٹمی پاکستان کی شمع بجھانے کیلئے مدتوں سے کوشاں ہیں ؟ مجھے ہر اس سیاستدان پر سخت اعتراض ہے جو حکمران ہمارے ہوں اور بچے ملک سے باہر ہوں سابقہ وزیر اعظم عمران خان بھی ہمیشہ یہی بات کرتے رہے ہیں ۔ مگر اب وقت آگیا ہے کہ سب سیاستدان عمران خان سمیت اس پر عمل کریں ۔ کسی شخص کو اس ملک پر حکمرانی کا حق نہیں ہونا چاہیے جس کے بچے اور کاروبار ملک سے باہر ہو ۔ پنجاب یونیورسٹی سے لیکر کومسیٹ اور لمز موجود ہیں پھر بچوں کو باہر کیوں بھیجتے ہیں؟پاکستان دنیا کا خوبصورت ترین ملک ہے جہاں سمندر سے لیکر پہاڑوں تک فارم ہائوسز بنا سکتے ہیں تو پھر سوئٹزرلینڈ ، آسٹریلیا اور امریکہ کیوں جاتے ہیں ۔ ہمارے سیاستدانوں ، جرنیلوں ،ججز اور بیوروکریٹس کا پاکستان سے جانا اس سرزمین اور اس بھوک سے مرتی قوم کے ساتھ جیسے مذاق ہے۔ آپ ہمار ا فخر ہیں ہم آپ کو یہاں گھومتے پھرتے دیکھ کر تادمِ مرگ سلام کرنا چاہتے ہیں۔موجودہ حالات کو دیکھ کر میں خوف زدہ ضرور ہوں مگر پھربھی اللہ کی رحمت سے مایوس نہیں ہوں ۔ پاکستان میں مختلف ادوار میں مختلف حکومتیں آئیں ۔ کبھی میرے عزیز ہم وطنو ! کی صدا آئی پاکستان نے تعمیرو ترقی کا سفر بھی طے کیا۔ بہت سے لوگوں کی تقدیریں بدل گئیں لیکن بیچاری قوم آج بھی دربدر ہے۔ میں منصف بن کر کسی کو الزام نہیں دینا چاہتا کیوں کہ سب نے یہ نعرہ لگایا کہ اگر مجھے حکومت ملی تو ملک و قوم کی تقدیر بدل دوں گا۔ فیصلہ آپ پر چھوڑتا ہوں کہ موجودہ حالات کا ذمہ دار کون ہے صرف جاتے جاتے کہنا چاہتا ہوں کہ :
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیا جائے
اس حادثہ وقت کو کیا نام دیا جائے
میخانے کی توہین ہے رندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے