• news

فنڈنگ کیس الیکشن کمشن آئینی ادارہ ہدایت کیسے دے سکتے ہیں جسٹس اطہر فیصلہ محفوظ 

اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس بابر ستار پر مشتمل ڈویژن بنچ میں زیر سماعت پی ٹی آئی فنڈنگ کیس میں انٹراکورٹ اپیل اور فیصلہ جلد سنانے سے روکنے کی متفرق درخواست میں دلائل مکمل ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ وکیل انور منصور نے کہا کہ پی ٹی آئی کو ٹارگٹ کیوں کیا جارہا ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے سیاسی جماعتوں کی بلا تفریق جانچ پڑتال کرنا الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے، الیکشن کمشن کورٹ آف لا نہیں، انتظامی باڈی ہے، تمام سیاسی جماعتوں کو ایک پیج پر ہونا چاہیے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اگر سیاسی جماعتیں ایک پیج پر ہو جائیں تو کتنی اچھی بات ہوگی۔ انور منصور نے کہاکہ احتساب سب کا ہونا چاہیے، صرف ایک سیاسی پارٹی کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے، ایک بڑی سیاسی جماعت کے خلاف کیس روزانہ کی بنیاد پر سنا گیا، ہم الیکشن کمشن میں پارٹی فنڈنگ کیس میں روزانہ دلائل دے رہے ہیں، عدالت نے کہا کہ الیکشن کمشن نے تو کہا کہ ٹائم فریم میں ہی سب کو سناجائے گا۔ وکیل نے کہا کہ ابھی تک دو سیاسی جماعتوں کی سکروٹنی شروع ہی نہیں ہوئی۔ عدالت نے کہا کہ اگر باقی سیاسی جماعتیں اس بات کو نیب کیسز کیلئے لیں تو کیا ہم نیب کو ڈائریکشن دے سکتے ہیں، ہماری سمجھ کے مطابق ممنوعہ فنڈنگ ثابت ہونے پر زیادہ سے زیادہ وہ فنڈ ضبط ہوسکتا ہے، سیکروٹنی کمیٹی رپورٹ جمع کرا چکی ہے، دیکھنا یہ ہے الیکشن کمشن اس رپورٹ کی بنیاد پر پی ٹی آئی کو شوکاز نوٹس جاری کرتا ہے یا نہیں۔ کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے کہاکہ پی ٹی آئی کے خلاف پارٹی فنڈنگ کیس پہلے شروع ہوا باقی بعد میں ہوئے۔ انور منصور ایڈووکیٹ نے کہا کہ ہم نہیں کہتے کہ کسی کے خلاف کیس شروع کریں یا نہیں۔ عدالت نے کہاکہ الیکشن کمشن آئینی ادارہ ہے، ہم ڈائریکشن کیسے دے سکتے ہیں؟، اگر الیکشن کمشن ایک سیاسی پارٹی فنڈ کی سکروٹنی کر رہا تو اعتراض کیا ہے؟۔ عدالت نے استفسار کیا کہ اگر پارٹی فنڈنگ مشکوک یا غیر قانونی نہیں تو مسئلہ کیا ہے۔ انور منصور ایڈووکیٹ نے کہا کہ قانوناً سکروٹنی کمیٹی کوئی آرڈر نہیں کرسکتی وہ میری دستاویزات واپس کریں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جو بات آپ کررہے ہیں وہ فیز گزر چکا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ہم آئینی ادارے کے معاملات میں کیسے مداخلت کرسکتے ہیں ؟، الیکشن کمیشن نے جو کیا آپ بھول جائیں، اتنا بتائیں ہم مداخلت کیسے کرسکتے ہیں؟۔ انور منصور ایڈووکیٹ نے کہا کہ الیکشن کمشن نہ عدالت ہے اور نہ ہی ٹریبونل ہے۔ کامران مرتضی ایڈووکیٹ نے کہا کہ پی ٹی آئی نے تمام سیاسی جماعتوں کی روزانہ کی بنیاد پر جانچ پڑتال کا کہا ہے، بظاہر پی ٹی آئی کی نیت بری لگ رہی ہے، پی ٹی آئی چاہتی ہے سب جماعتوں کا ایک ساتھ فیصلہ کیا جائے تاکہ کسی کا بھی فیصلہ نہ ہو، سربراہ سیکروٹنی کمیٹی الیکشن کمشن محمد ارشد نے کہاکہ باقی تین سیاسی جماعتوں کی سکروٹنی بھی کررہے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ جس سٹیج پر پی ٹی آئی نے رجوع کیا عدالت کیسے فرض کرے کہ الیکشن کمشن شفاف کارروائی نہیں بڑھا رہا، کیسے فرض کرلیں کہ الیکشن کمشن درست فیصلہ نہیں کرے گا۔ انور منصور ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہم شفافیت کی بات نہیں کررہے بلکہ مسئلہ بلا تفریق کارروائی کا ہے۔ عدالت نے کہاکہ اس کیس میں کوئی سنجیدہ نوعیت کے نتائج نہیں ہیں، جب پی ٹی آئی کی دستاویزات بالکل درست ہیں تو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے کہا کہ ان کی سو سیاسی جماعتوں کیخلاف شکایت آئی تھی، سیکروٹنی کے بعد الیکشن کمیشن نے ان میں سے سترہ جماعتوں کو نوٹس کیے ہیں۔ جماعت اسلامی کے وکیل نے کہاکہ 2014 سے 2018 تک جماعت اسلامی کو الیکشن کمیشن نے کبھی نوٹس نہیں بھیجا، تمام جماعتوں کو فارن فنڈنگ کیس کیساتھ منسلک کرنا درست نہیں، الیکشن کمیشن وکیل نے کہاکہ ان کو ایک ماہ کے وقت پر اعتراض تھا وہ تو اب ویسے بھی گزر چکا ہے۔ عدالت نے کہاکہ جماعت اسلامی کہہ رہی ہے ہم ہر وقت سکروٹنی کے لیے تیار ہیں۔ اس موقع پر عدالت نے بریانی والے جلسوں سے متعلق بات کرنے سے روکتے ہوئے کہا کہ آپ سیاسی بات نہ کریں، عدالت نے کہا کہ اس وقت عدالت کے سامنے الیکشن کمشن کا کوئی فیصلہ موجود نہیں۔ 
فیصلہ محفوظ

ای پیپر-دی نیشن