جناب سپیکر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں!!!!
چودھری صاحب چاہتے ہیں آئی جی پنجاب اسمبلی آئیں، ہاتھ باندھ کر کھڑے ہو جائیں، سر جھکائیں، اپنی چھڑی ان کے سامنے رکھیں اور اجازت طلب کریں جناب سپیکر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں، جناب سپیکر جواب دینے کے بجائے شان بے نیازی سے ادھر اْدھر دیکھیں، منہ پھیر لیں پھر آئی جی پنجاب کو دیکھا ان دیکھا کر دیں اور توجہ اسمبلی کی کارروائی پر مرکوز کر دیں۔ اتنے میں آئی جی پنجاب اپنی جگہ تبدیل کریں سپیکر پنجاب اسمبلی کے تھوڑا اور قریب اور سامنے آئیں اور دہرائیں جناب سپیکر جان کی امان پاؤں تو کچھ عرض کروں، جناب سپیکر دوبارہ نظر انداز کرتے ہیں جیسے نہ انہوں نے دیکھا نہ سنا اتنے میں سپیکر کا سٹاف انہیں بتاتا ہے کہ آئی جی پنجاب حاضر ہیں۔ یوں چودھری صاحب نہایت غصے میں آئی جی پنجاب کی طرف دیکھتے اور کہتے ہیں جائیں میں معاف نہیں کرتا، لوگ انہیں سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن چودھری صاحب کسی کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتے جب زیادہ لوگ سمجھانے کے عمل کا حصہ بنتے ہیں تو چودھری صاحب کا غصہ کم ہونے لگتا ہے اور ان کا موقف تبدیل ہونے کا امکان پیدا ہوتا ہے کہ اتنے میں ایک شخص ان کے کان میں کچھ کہتا ہے یکا یک چودھری صاحب کا موڈ بدل جاتا ہے اور وہ کہتے ہیں میں نے معاف نہیں کرنا۔
قارئین کرام یہ کہانی پنجاب اسمبلی کی ہے۔ ایک معافی اور وہ بھی نمائشی اس معافی کی خاطر پورے نظام کو تماشا بنا دیا گیا ہے۔ اپوزیشن صوبے میں پولیس کے سربراہ سے معافی منگوانا چاہتی ہے اور پنجاب اسمبلی کا حال دیکھ کر لوگ سیاست دانوں سے معافی مانگ رہے ہیں۔ کیا ان اجلاسوں پر اراکین کا ذاتی پیسہ خرچ ہوتا ہے۔ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ملک ڈیفالٹ ہو سکتا ہے پھر جمہوریت کے یہ نام نہاد علمبردار اسمبلی کے اجلاسوں پر پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔ کیا یہ اراکین صرف ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے لیے جمع ہوتے ہیں۔ پنجاب اسمبلی کا بجٹ اجلاس یقینی طور پر تمام اراکینِ اسمبلی کی اہلیت بالخصوص سیاسی جماعتوں کے قائدین کی صلاحیتوں پر سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کا رویہ تو سپیڈ بریکر جیسا ہے انہوں نے ہر چلتی چیز کو روکنا ہے لیکن پنجاب اسمبلی میں موجود دیگر جماعتیں بالخصوص مسلم لیگ نون تو یہاں سب سے زیادہ تجربہ کار اور صوبے کے انتظامی معاملات کو چلانے کا سب سے زیادہ تجربہ بھی رکھتی ہے، گذشتہ کئی برسوں سے وہ یہ کام تسلسل سے کر رہے ہیں لیکن اس تمام تر تجربے کے باوجود وہ ایک بجٹ اجلاس کے انعقاد کو یقینی نہیں بنا سکے، اگر وہ ایک اجلاس نہیں کروا سکے تو صوبہ کیسے چلائیں گے۔ یہی سوال وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف سے بھی ہے۔ پنجاب اسمبلی کے موجودہ حالات کو مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ایوان کو چلانا، بہتر ماحول پیدا کرنا اور اپوزیشن کو ساتھ لے کر چلنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔ اگر حکومت بھی اپوزیشن کی طرح "ضد" کرے تو ایوان کو چلانا ممکن نہیں رہتا۔ اراکینِ اسمبلی کا رویہ چیخ چیخ کر بتا رہا ہے کہ ہم اپنے مسائل خود حل کرنے کے اہل نہیں ہیں، دونوں بڑی جماعتیں تیسری قوت کو آوازیں دے رہی ہیں کہ آئیں اور حکومت کریں۔ عوام کے مسائل حل کرنے کے دعوے کر کے اسمبلی پہنچنے والوں کے اپنے مسائل ہی حل نہیں ہوتے یہ وہ پوگ ہیں جنہوں نے صوبے کو مسائل سے نکالنے اور قرض سے نجات دلانے کے لیے حکمت عملی تیار کرنی ہے۔ وہ ایک اجلاس کرنے کے قابل نہیں، کیا ہم نے آگے نہیں بڑھنا، کیا یہ جمہوری رویے ہیں، کیا آئین و قانون پر عمل صرف اس وقت لازم ہے جب آپ کو ضرورت ہے۔ عوام کے مسائل حل کرنے کے دعویداروں کے اپنے مسائل حل نہیں ہو رہے۔ مسلسل دو روز تک ملک کا سب سے بڑا صوبہ بجٹ پیش نہیں کر سکا۔ یقیناً ایوان کے بڑوں کے لیے یہ نتیجہ سوالیہ نشان ہے۔ یہاں پاکستانی ہونے سے پہلے جیالا، متوالا یا پھر انصافین ہیں۔ سب کو اپنی جماعت کی فکر ہے۔
پاکستان کا دفاعی بجٹ ہمیشہ دفاع کی حیثیت کو نہ ماننے والوں کے لیے ایک موضوع رہا ہے۔ آج بھی پاکستان کے دفاعی بجٹ کا مذاق بنانے والوں کو یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اور بھارت کے دفاعی بجٹ میں کیا فرق ہے، دیگر ملکوں کے ساتھ پاکستان کا موازنہ کرنے سے پہلے ان ممالک کے دشمنوں کا بھی پتہ لگائیں۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہتے ہیں کہ بھارت کا بڑھتا ہوا دفاعی بجٹ سامنے رکھیں، دوہزار بیس سے فوج نے بجٹ میں کوئی اضافہ نہیں کیا، مہنگائی کی شرح سے دیکھیں تو دفاعی بجٹ کم ہوا ہے، افواج کا بجٹ جی ڈی پی کی شرح کے لحاظ سے مسلسل نیچے جا رہا ہے، ہم نے سو ارب روپے بجٹ کم لیا ہے، یوٹیلیٹی بلز کی مد میں اخراجات کو محدود، پٹرول،ڈیزل کی بچت کیلئے نقل و حرکت بھی محدود کردی گئی ہے۔ بد قسمتی سے کچھ عرصے سے افواج اور عسکری قیادت کیخلاف پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کی باتوں میں سیاست دانوں،حکمرانوں کے سیکھنے کو بہت کچھ ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ان ناقدین جو کسی طور بھی غیر جانبدار ہو کر دفاعی بجٹ کا جائزہ نہیں لیتے ان کے لیے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ دفاعی بجٹ ہمارے دفاع پر خرچ ہوتا ہے۔ یاد رکھیں اس معاملے میں پاکستان کا موازنہ کسی دوسرے ملک سے نہیں کیا جا سکتا۔شدید گرم موسم میں ٹھنڈی خبر یہ ہے کہ برادر ملک انڈونیشیا پاکستان کو پام آئل فراہم کر رہا ہے۔تیس ہزار میٹرک ٹن خوردنی تیل سے بھرا پہلا بحری جہاز پاکستان پہنچے گا۔ دس بحری جہاز آئندہ چند روز میں انڈونیشیا اور ملائشیا سے پاکستان پہنچیں گے۔ جہاں یہ خبر خوش آئند ہے وہیں ایک سبق بھی ہے۔ ہم اپنی ضرورت کی ہر چیز کے لیے دنیا کی طرف دیکھتے ہیں۔ جانے یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا۔ اب تو یہ حالات ہیں کہ زرعی ملک ہونے کے باوجود ہمیں گندم بھی باہر سے منگوانا پڑتی ہے، کاش کہیں سے اچھے حکمران بھی امپورٹ کر لیں تاکہ کم از کم یہ صلاحیت کی کمی کا مسئلہ تو حل ہو۔