خطے میں امن و تجارت ہی ترقی کے ضامن ہیں
قیام پاکستان سے لیکر پاک بھارت تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے ہیں اور کبھی بھی دوستانہ مثالی تعلقات قائم نہیں ہوسکے کیونکہ دونوں ممالک کے درمیان کشمیر کا تنازع سب سے اہم حیثیت کا حامل ہے اور اب سندھ طاس معاہدے کی بھارتی خلاف ورزیوں کے بعد پاکستان اس وقت شدید آبی قلت کا شکار ہے اور خدانخواستہ مستقبل قریب میں آبی قلت برقرار رہی تو اس معاملے پر بھی حالات مزید خراب ہوسکتے ہیں۔
افغانستان 4دہائیوں سے حالت جنگ میں ہے اور ایران کی بھی عراق سے جنگ ہوتی رہی اور اب بھی ایران امریکی سرد جنگ و معاشی پابندیوں کا شکار ہے۔ ایسے میں امریکہ نے ہمیشہ خطے میں بھرپور مداخلت کرکے اس خطے سے اپنے مفادات حاصل کئے ہیں اور امریکہ کی ہمیشہ سے خواہش رہتی ہے کہ وہ دو ممالک کو آپس میں لڑاکر انہیں اپنا مہنگا اسلحہ فروخت کرے جس سے امریکہ کی معیشت کو بہت بڑا سہارا ملا ہوا ہے۔
پاک بھارت تعلقات تنازع کشمیر کے باعث خراب ہی رہے ہیں اور امریکہ نے دونوں فریقوں کو اپنا اسلحہ فروخت کیا ہے۔
گزشتہ روز بجٹ 2022ء پر ایک جملہ کسی نے بھیجا کہ صحت و تعلیم کے لئے موجودہ بجٹ میں چند روپے فی شہری جبکہ دفاع کے لئے سات ہزار روپے فی کس سے زائد بجٹ مختص کیا گیا ہے اور اس پر ہر ایک نے اپنی رائے دی۔
پاکستان نے ہمیشہ دفاعی حکمت عملی رکھی ہے اور کبھی بھی توسیع پسندانہ عزائم کا اظہار نہیں کیا جبکہ بھارت نے ہمیشہ پاکستان پر چڑھائی کی ہے اور بھارت نے 1965ء میں حملہ کرتے ہی دعویٰ کیا کہ آج شام لاہور کلب میں ہم چائے پئیں گے۔
بھارت اپنی ایک ارب سے زائد آبادی کو بنیادی سہولیات‘ تعلیم و صحت کی فراہمی کے بجائے اپنے بجٹ کا کثیر حصہ دفاع کے لئے مختص کرتا ہے اور اسلحے کے انبار لگا رکھے ہیں جبکہ عوام کی حالت زار یہ ہے کہ لوگ رات میں بازار و دکانیں بند ہونے کا انتظار کرتے ہیں جہاں رات میں ان کے گھر آباد ہوجاتے ہیں۔ بھارت کی بہت بڑی آبادی بے گھر ہے۔
بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم اور اسلحے کے انبار لگا لینے کے بعد پاکستان کی مجبوری ہے کہ کشمیر کی آزادی‘ بھارت میں مقیم کروڑوں مظلوم مسلمانوں کو بھارتی ظلم کو استبداد سے بچانے کی صلاحیت کے حصول کے لئے جوابی طور پر اپنے قومی بجٹ میں دفاع کے لئے مناسب رقم مختص کرے اور بھارت کے جارحانہ و توسیع پسندانہ عزائم کو روکنے کے لئے اپنی پوری تیاری رکھے۔
تاریخ گواہ ہے کہ اگر آپ معاشی طور پر کمزور تر ہوجائیں تو پھر آپ کے اسلحے کے انبار کسی کام کے نہیں اور آپ معاشی بدحالی کے باعث جنگ میں شکست سے دوچار ہوجاتے ہیں۔ جس طرح 1979ء میں سینکڑوں ایٹم بموں‘ جدید میزائل و اسلحہ سے لیس دنیا کی دوسری سپر پاور روس کے صدر گورباچوف نے افغانستان پر حملے کی نادانی کی اور روس افغانستان کی جنگ میں ایسا پھنسا کہ اس کی معاشی حالت بدترین ہوگئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ سینکڑوں ایٹم بم رکھنے والا سپر پاور روس اپنی یکجہتی قائم نہ رکھ سکا اور افغانستان سے شکست کھاتے ہی ٹکڑے ٹکڑے ہوکر بکھر گیا ۔
لہذا خطے کے عوام کے ترقی و خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ پاکستان‘ بھارت‘ ایران اور افغانستان ملکر 20سال تک آپس میں جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کریں۔ باہمی تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا حتمی فیصلہ کیا جائے اور باہمی تجارت کو ہی اولین ترجیح قرار دیا جائے تو خطے کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
نیت ہو کہ اب ہم اپنی قومی آمدن اپنے عوام کی خوشحالی پر ہی خرچ کریں گے تو سب سے زیادہ فائدہ بھارت کو ہی ہوگا کہ وہاں کی ایک ارب سے زائد آبادی کو بنیادی سہولیات مل سکیں گی اور اسی طرح پاکستان‘ ایران و افغانستان بھی امن و خوشحالی کی جانب گامزن ہوسکیں گے۔
20سال تک جنگ نہ کرنے کے معاہدے کے بعد پاکستان بھی اپنے دفاعی بجٹ میں کمی کرکے عوام کی فلاح و بہبود و بنیادی سہولیات کی فراہمی پر مناسب رقم خرچ کرسکے گا۔
معاشی مسائل میں کمی لانے کے لئے خطے کے پڑوسی ممالک مقامی کرنسی میں باہمی تجارت اور پیٹرولیم ‘ گیس و توانائی کے ساتھ ساتھ خوراک و مشینری کی باہمی تجارت کو اولین ترجیح دی جانی چاہئے۔
اس وقت پاکستان گیس کی شدید قلت کا شکار ہے لیکن 2013ء میں زرداری حکومت کے ایران گیس پائپ لائن منصوبے پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کیا گیا حالانکہ ایران نے کئی سال پہلے سے اپنی حدود میں گیس پائپ لائن مکمل کررکھی ہے لیکن ہمارے ہاں ’’غلامی نہیں‘ آزادی‘‘ کا نعرہ لگانے والوں نے بھی اپنی حکومت کے 4سال میں ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنا تو کجا‘ اس کا نام تک لینا گوارہ نہیں کیا ۔
ہمارے ہاں کئی سیاستدان ٹیلی ویژن پر ہر وقت جھوٹ بولتے رہتے ہیں جس کی وجہ سے ملک میں زندگی کے ہر شعبے سے برکت ختم ہوگئی ہے اور لوگوں نے اس جھوٹ کی وجہ سے ٹیلی ویژن دیکھنا تک چھوڑ دیا ہے۔
اصل خودداری تو یہی ہے کہ ہم اپنی ایسی آزاد خارجہ پالیسی بناکر عمل کریں کہ جس سے پڑوسی ممالک سے ہمارے تعلقات و تجارت مثالی ہوجائے اور ہمیں خطے سے باہر کے ممالک سے اسلحہ‘ امداد‘ تجارت و خوراک کی کوئی ضرورت ہی نہ رہے اور ہماری زیادہ قومی آمدن صرف عوام کی ترقی و خوشحالی پر خرچ ہو۔
اس بارے میں ہر ایک اپنی سوچ کے مطابق لکھتا ہے لیکن امن کے بغیر ترقی ممکن نہیں اور امن کے لئے دیرینہ تنازعات کا پرامن حل ضروری ہے۔ دیرینہ تنازعات کے پرامن حل کے لئے عوام کی ترقی و خوشحالی کے لئے خلوص نیت کا ہونا ضروری ہے ۔ اگر پاکستان‘ بھارت‘ ایران اور افغانستان خطے میں ترقی کی خاطر یہ انقلابی فیصلہ کرکے مل بیٹھیں تو امریکہ و یورپ کی اسلحے کی انڈسٹری کو بھی دھچکا لگے گا اور ساتھ ہی ساتھ خطے میں غیر ضروری و شاطرانہ مداخلت کا بھی خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔