• news

بھارتی اسلاموفوبیا پر وزیر اعظم کا احتجاج

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ بھارت ظالمانہ اور جابرانہ ریاستی ہتھکنڈوں سے مسلمانوں کو دبانے کی کوشش کررہا ہے، بھارت کا اصل ''جمہوری چہرہ ''دنیا کے سامنے عیاں ہو گیا ہے۔ پیرکو اپنے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ بھارت مسلمانوں کو دبانے کے لئے ظالمانہ اور جابرانہ ریاستی ہتھکنڈے استعمال کررہاہے اور اس کا مقصد مسلمانوں کو سیاسی، معاشی اور ثقافتی لحاظ سے دیوار کے ساتھ لگانا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت کے ''جمہوری چہرے'' کی حقیقت دنیا کے سامنے عیاں ہو گئی ہے
وزیر اعظم نے بھارت کا مکروہ اور جابرانہ چہرہ اپنے ٹویٹ میں بے نقاب کیاہے۔بھارت میں پچھلے دنوں حکمران بی جے پی کے ایک ترجمان نے اسلام کے بارے میں سنگین ہرزہ سرائی کا مظاہرہ کیا جس پر بھارت کے مسلمان تڑپ کر رہ گئے اور عالم اسلام نے اس پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ۔سعودی عرب،قطر،کویت ،امارات نے بھارتی مصنوعات کا بائی کاٹ کرنے کا اعلان کیا ،پاکستان میں وزیر اعظم شہباز شریف نے بھی ایک بیان میں بھارت کی ہرزہ سرائی کی مذمت کی ۔بھارتی سفارت خانے کو وزارت خارجہ میں بلا کر احتجاجی مراسلہ بھی دیا گیا ۔افواج پاکستان نے بھی بھارت کی شیطنت کی سخت مذمت کی ۔وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے بھی اس پر احتجاجی بیان جاری کیا ۔مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ بھارت اس عالمگیر احتجاج پر ٹس سے مس نہ ہوا اور اس نے ہرزہ سرائی کے مجرم کو سنگین سزا دینے سے گریز کیا اور الٹا بھارتی مسلمان مظاہرین پر سخت تشدد کیا گیا ۔
بھارت میں ہندواتا کی زہریلی لہر زوروں پر ہے اور اس میں شدت تب سے آئی ہے جب سے نریندر مودی اقتدار میں آئے ہیں وہ گجرات میں مسلمانوں کے قاتل ہیں ان کا تعلق کھلم کھلا طور پر جن سنگھ پارٹی سے ہے جو اکھنڈ بھارت پر یقین رکھتی ہے اور جو بھارت کو ایک ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کے لیے دہشت گردانہ کاروائیاں کرتی ہے ۔بھارت میں متعصب ہندوئوں نے کبھی مسلمان اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کیا ۔وہ ہر حیلے بہانے سے مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں اور ان کی جائیدادوں کو مسمار کرتے ہیں یا نذر آتش کردیتے ہیں ۔بھارت کی جن سنگھی منافقت کا سنگین مظاہرہ اس وقت کیا گیا جب صدر ٹرمپ بھارتی دورے پر آئے ہوئے تھے اور دہلی میں مقیم تھے ۔ہندو بلوائیوں نے تین دن اور تین رات تک بھارت کے دارالحکومت نئی دہلی میں مسلمان محلوں کو راکھ بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ سرکاری سرپرستی میں ہوتا رہا ۔
بھارت نے کشمیری مسلمانوں پر پچھلے پچھتر برس سے ظلم و جبر کا سلوک روا رکھا ہوا ہے ۔کشمیر مسلم اکثریت کی ایک ریاست ہے لیکن بھارت نے وہاں نو لاکھ فوج متعین کر رکھی ہے ۔ہر بھارتی فوجی نو کشمیری مسلمانوں کے سر پر سنگین تانے کھڑا ہے ۔پانچ اگست دو ہزار انیس کو بھارت نے اپنے ہی آئین کی دھجیاں بکھیر دیں اور ریاست جموں و کشمیر کو ہڑپ کرنے کے لیے آئینی ترمیم کر ڈالی ۔کشمیریوں کے احتجاج کو دبانے کے لیے مسلسل کرفیو نافذ کردیا گیا بعد میں کرونا کے دنوں میں بھی کرفیو کی پابندیاں اس قدر سخت تھیں کہ مریضوں کو ہسپتال تک جانے کی اجازت نہ دی گئی ۔کشمیری مسلمانوں کی نسل کشی کا سلسلہ بڑی ڈھٹائی سے جاری ہے اور کشمیر میں ڈیمو گرافک تبدیلیوں کے لیے وسیع پیمانے پر ہندوئوں کی آباد کاری کی جارہی ہے ،یہ وہی فارمولا ہے جو اسرائیل نے فلسطین میں آزمایا ہے اور مسلمانوں کو ایک معمولی اقلیت میں تبدیل کرکے رکھ دیا گیا ہے ۔وادی کشمیر سے خبروں کے بلیک آئوٹ کے لیے انٹر نیٹ ٹیلی فون موبائل اور وائی فائی پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں ۔تمام کشمیری حریت پسند لیڈروں کو قید و بند میں ڈال دیا گیا ہے اور فارق عبد اللہ اور عمر عبداللہ جیسے بھارت کے ہم نوا لیڈروں کے ساتھ بھی یہی سلوک روا رکھا گیا ہے ۔بزرگ حریت پسند لیڈر سید علی گیلانی کو اس قدر قید تنہائی کا شکار کیا گیا کہ وہ دنیا ئے  فانی سے رخصت ہوگئے انہیں علاج معالجے کی بھی کوئی سہولت نہ ہوئی ۔ان کی میت کو بھی اہل خانہ سے چھین کر کسی نا معلوم جگہ پر دفنا دیا گیا ۔اب یٰسین ملک بھارتی جبر کا تازہ نشانہ بنے ۔انہیں دہشت گردی کے جرم میں دو مرتبہ عمر قید کی سزا سنا دی گئی ہے خدشہ یہ تھا کہ بھارت انہیں کہیں پر اسرار طور پر پھانسی نہ دے ڈالے ۔کشمیری مسلمانوں کو نہ صرف دنیا سے کاٹ کر رکھ دیا گیا ہے بلکہ جس بھارت کا انہیں حصہ بنایا گیا ہے اس سے بھی انہیں کاٹ دیا گیا ہے ۔حتیٰ کہ کانگرس کے صدر راہول گاندھی نے حالات کی آگاہی حاصل کرنے کے لیے سری نگر کا دورہ کرنے کی کوشش کی تو اسے وہیں سے واپس کر دیا گیا ۔دنیا بھر کی انسانی حقوق  کی تنظیموں کے نمائندوں کو بھی کشمیر میں داخلے کی اجازت نہیں ہے ۔
بھارت نے مسلمانوں کے حقوق کی پامالی کے لیے ایک اور وار کیا ہے اور شہریت کا انوکھا قانون نافذ کر دیا گیا ہے اس قانون کی رو سے اقلیتوں کو مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ اپنی بھارتی شہریت کا ثبوت فراہم کریں ۔اس قانون کے ذریعے مسلمان تو نشانہ بنے  ہی ہیں غیر مسلم اقلیتوںکو بھی اس کا نشانہ بننا پڑا ہے ۔کہنے کو تو بھارت ایک سیکولر ملک ہے لیکن عملی طور پر وہ ایک متعصب ہندو ریاست کے طور پر اپنی اقلیتوں کے حقوق کو پامال کر رہا ہے۔اس پس منظر میں بھارت کی جمہوریت کا پردہ بھی فاش ہوگیا ہے اور اس کا سیکولر ازم بھی بے نقاب ہوگیا ہے ۔وزیر اعظم شہباز شریف نے بجا طور پر اپنی ٹویٹ میں بھارت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے کاش وزیر اعظم کے اس احتجاج پر عالمی ضمیر بھی جاگے اور بھارت کو ایک دہشت گرد ملک ہونے کی قرار واقعی سزا دی جائے ۔ 

ای پیپر-دی نیشن