جمعرات،16 ذیقعد 1443ھ، 16جون 2022 ء
فریٹ کا کرایہ 15 فیصد بڑھایا‘ مسافر ٹرینوں کا نہیں بڑھائیں گے: سعد رفیق
اب تو حالت یہ ہو گئی ہے کہ کہیں سے بھی کوئی اچھی خبر نہیں مل رہی۔ ایسے میں یہ چھوٹی سی خبر بھی دل کو ڈھارس دے رہی ہے کہ مسافر ٹرینوں کے کرایوں میں اضافہ نہیں کیا جا رہا۔ ہاں البتہ کارگو ٹرینوں کے کرائے میں 15 فیصد اضافہ کیا جا رہا ہے۔ا گرچہ اس اضافے کا بھی اثر عوام پر ہی پڑے گا۔ مال گاڑیوں میں جو سامان لایا جائے گا یا بھیجا جائے گا‘ وہ جب بازار میں آئے گا تو مہنگا کرایہ اس کی قیمت میں ڈالا جائے گا۔ یوں مال کی قیمت بڑھے گی۔
عوام کا چونکہ زیادہ تر پالا مسافر گاڑی سے ہوتا ہے اس لئے وہ تو خوش ہیں مگر تجارتی لوگ کرایہ میں اضافہ عوام کی جیبوں سے ہی نکالیں گے۔ ایک بات ضرور ہے کہ سعد رفیق کو شاید ریلوے کی وزارت دی ہی اس لئے گئی ہے کہ وہ ایک بار اسے اچھی طرح چلا چکے ہیں۔ یوں اب بھی یہی توقع کی جارہی ہے کہ ریل کو سہارا دیں گے۔
گزشتہ حکومت میں شیخ رشید نے ریلوے کا حال بے حال کر دیا کیونکہ ان کا زیادہ وقت ملکی سیاست میں بسر ہوتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرینوں کی آمدورفت میں تاخیر انتظامی بدنظمی اور سہولتوںکی کمی نے ایک بار عوام کو ریلوے سے متنفر کر دیا تھا حالانکہ یہ محفوظ اور سستے سفر کا بہترین ذریعہ ہے جبکہ نجی ٹرانسپورٹ مالکان تو مسافروں کی کھال اتارنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں ۔ان کی بڑی بسوں میں بھی وہ سہولتیں نہیں ہوتیں جس کا وہ جھانسہ دے کر مسافروں کو بے وقوف بناتے ہیں۔
٭٭……٭٭
لال سہانرا پارک میں دو مگرمچھوں کی لڑائی‘ ایک مر گیا
لگتا ہے ہماری جنگلی حیات پر بھی انسانی رویوں کا اثر پڑنے لگا ہے۔ جبھی تو لال سہانرا نیشنل پارک بہاولپور میں موجود دو مگرمچھ آپس میں لڑ پڑے جن میں سے شدید زخمی ہونے والا ایک مگرمچھ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے ہلاک ہو گیا۔ اب معلوم نہیں پارک کی انتظامیہ اس جھگڑے کی تحقیقات کرے گی یا نہیں قاتل مگرمچھ کے خلاف مقدمہ درج ہوگا یا نہیں۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے کہ شدید گرمی اور پانی کی قلت کی وجہ سے تالاب خشک ہونے کے غصے میں یہ دونوں باہم دست گریباں ہوئے ہوں اس لئے انتظامیہ تمام صورتحال کی تحقیقات جلد کرائے تاکہ باقی جانور بھی آپس میں نہ لڑ پڑیں۔ کمیٹی بنانے کے چکروں میں نہ پڑیں۔ ویسے بھی دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر رکھا نہیں جا سکتا۔ اس لئے احتیاط بھی لازم ہے۔
اس وقت ہماری سیاست کے تالاب میں بھی بڑے بڑے مگرمچھ برسرپیکار ہیں۔ اتفاق کی بات کہہ لیں یا دکھ کی بات‘ وہ یہ ہے کہ اس بار سارے مگرمچھ آپس میں دست گریباں ہیں۔ سب کے پیٹ بھرے ہوئے ہیں۔ جبھی تو یہ تالاب کے کنارے آرام سے لیٹے دھوپ سینک رہے تھے کہ اچانک ان کے پیٹ پھاڑنے کی مہم نے روز پکڑ لیا۔ خدا خیر کرے‘ یہ سیاسی مگرمچھ اس طرح شکار ہوتے رہے تو کہیں جلدہی ہماری سیاست مگرمچھوں سے پاک ہی نہ ہو جائے۔ پھر کون کس کا پیٹ پھاڑ کر مال نکلوانے کی باتیںکرے گا۔ ہماری سیاسی مہم جوئی تو انہی مگرمچھوں کی مرہون منت ہے۔
٭٭……٭٭
قوم بحران میں چائے کے ایک دو کپ کم کر دے: احسن اقبال
ایک نگوڑی چائے ہی تو رہ گئی ہے جو قوم کا غم غلط کرتی ہے۔ جسم کا درد ہو یا سر کا درد۔ دماغی ٹینشن ہو یا مالی تفکرات‘ ہماری قوم نے ان سب کا علاج چائے کی پیالی میں تلاش کر رکھا ہے۔ اب اس بات کا کیا کریں کہ بیرون ملک سے ہم چائے منگوانے پر ہر سال اربوں روپے خرچ کرتے ہیں۔ بے شک یہ ہماری معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ مگر جب عوام کی معیشت کا ہی بیڑہ غرق ہو گیا ہوتو وہ چائے نہ پئے تو کیا گھاس کھائے۔ اب تو واقعی یہ حال ہو چکا ہے کہ سفید پوش لوگوں کے گھروں میں فرمائش کی جاتی ہے کہ ’’چائے کے ساتھ ہی ایک روٹی دے دو۔‘‘ اس سے بڑا ستم اور کیا ہوگا۔ دال سبزی تو لوگوں کی قوتِ خرید سے دور ہو گئی ہے۔ ایسے میں ایک کپ چائے ہی غمگساری کیلئے موجود ہوتی ہے۔ عوام دل پر پتھر رکھ کر یہ ہو سکتا ہے کہ احسن اقبال جیسے اشرافیہ کے مشورے پر ایک آدھ پیالی چائے کم کر دیں مگر بعض لوگوں کو نصیب ہی دو پیالی چائے ہوتی ہے۔ ایک صبح‘ ایک شام کو وہ کیا کریں گے۔ اب تو پیاز اور نمک بھی مہنگا ہے۔ چٹنی ملتی نہیں تو کیا پانی کے ساتھ روٹی کھائیں۔ بے شک چائے منگوانے کیلئے ہم کثیر سرمایہ صرف کرتے ہیں اس لیے عوام خود بھی بار بار چائے منگوانے اور پینے سے اجتناب کریں۔ کوشش کریں چائے کا استعمال کم ہو تاکہ ملکی خزانے پر بوجھ کم پڑے اور ہمارا بھاری سرمایہ بیرون ملک جانے سے بچ جائے۔ اس بات پر ضرور غورکرنا ہو گا۔
٭٭……٭٭
خیبر پی کے جنگلات میں بھی آتشزدگی‘ قابو نہیں پایا جا سکا
اس وقت ملک میں آتشزدگی کے پے درپے حادثات جس طرح سامنے آہے ہیں‘ اس کی وجہ سے جنگلات کو بہت نقصان ہو رہا ہے۔ پہلے بلوچستان‘ آزادکشمیر‘ پھر اسلام آباد اور اب خیبر پی کے میں وسیع پیمانے پر جنگل میں لگنے والی آگ سے نہ صرف ہزاروں درخت جل گئے ہیں بلکہ اس سے جنگلی حیات کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔ ملکی جنگلات کا ایک بڑا حصہ خیبر پی کے میں موجود ہے جہاں لگنے والی آگ سے نقصان بھی شدید ہوگا۔ اب تک بڑے پیمانے پر کوششوں کے باوجود آگ پر قابو پایا نہیں جا سکا۔ مخالفین اس آگ کو بھی آڑے ہاتھ لے رہے ہیں اور افواہ یہ ہے کہ کہیں ٹریلین ٹری منصوبے میں ہونے والی باقاعدگیوں کو چھپانے کیلئے یہ آگ خود تو نہیں لگائی گئی تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ اب جب درخت ہی نہیں رہیں گے تو شمار کون کرے گا۔ خیر یہ ہوائی کسی دشمن نے اڑائی ہوگی مگر اصل مسئلہ اس آگ پر قابو پانا ہے جس میں کوتاہی نہیں ہونی چاہئے۔ خدا کی رحمت سے مون سون کا سپل بھی شروع ہو رہا ہے۔ خدا کرے یہ آ گ پہلی بارش سے ہی بجھ جائے اور جنگلات کو مزید کوئی نقصان نہ ہو۔