• news

مفتاح بڑی بڑھکیں مارتے تھے ، عمرانی ، آئی ایم ایف معاہدہ سامنے لائیں : نور عالم 

اسلام آباد (نامہ نگار) قومی اسمبلی میں آئندہ مالی سال 2022-23 ء کے وفاقی بجٹ پر بحث جمعہ کو بھی جاری رہی۔ اراکین نے تجویز دی کہ ملک بھر میں تمام ٹیوب ویلز کو سولر پر منتقل کیا جائے، حکومت کی جانب سے سولر کی درآمد پر 17فیصد ٹیکس معاف کرنا احسن فیصلہ ہے، زراعت کو ترقی دیکر ہم معاشی طور پر خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن نے تمام وزرائ، اپوزیشن لیڈر، پی اے سی اور قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمینوں سے مفت پٹرول کی سہولت واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا جبکہ جی ڈی اے کی رکن اسمبلی سائرہ بانو نے بطور چیئرپرسن قائمہ کمیٹی ملنے والا پٹرول کا کارڈ قومی اسمبلی میں واپس کر دیا۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ہوا۔ اجلاس کے دوران رکن قومی اسمبلی  مولانا عبدالاکبر چترالی نے چترال میں ہونے والی لوڈشیڈنگ کا معاملہ اٹھایا، کم سے کم چترال کے لوگوں کو بجلی تو ملنی چاہئے۔ سپیکر رولنگ دیں کہ پیسکو حکام چترال سے معاہدہ کریں۔ جی ڈی اے کی رکن قومی اسمبلی سائرہ بانو نے کہا کہ میں بطور چیئرپرسن قائمہ کمیٹی جو پٹرول کارڈ ملا ہوا ہے یہ میں واپس کرتی ہوں۔ پیپلز پارٹی کی رکن قومی اسمبلی شاہدہ رحمانی نے کہا کہ تین سال کے لئے دفاتر میں فرنیچر کی خریداری کو بند کیا جائے۔ مسلم لیگ (ن)  کے رکن قومی اسمبلی چوہدری محمد اشرف نے کہا کہ بیٹری سے گاڑیاں چلائی جائیں۔ پا کستان پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی شگفتہ جمانی نے کہا کہ اس بجٹ میں زراعت پر فوکس کیا گیا ہے۔ جے یو آئی(ف) کے رکن قومی اسمبلی مولانا عصمت اللہ نے کہا کہ کوئٹہ ون کے حلقہ کو توجہ دی جائے، یہ سہولیات سے محروم ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رکن اسمبلی میر منور علی تالپور نے کہا کہ ہمارا فوکس زراعت پر ہونا چاہیے۔ جی ڈی اے کی رکن اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا میں توقع کرتی ہوں کہ سارے وزرائ، قائمہ کمیٹیوں کے چیئرمین، لیڈر آف اپوزیشن، پی اے سی کے چیئرمین ان سب کے کارڈز واپس لے لیجئے۔ سندھ کا پانی چوری ہورہا ہے اس کی تحقیقات ہونی چاہئیں۔ وفاقی وزیر میاں جاوید لطیف نے کہا کہ فہمیدہ مرزا نے جو بات کی اس سے سو فیصد اتفاق کرتا ہوں، جن کی کابینہ کی یہ ممبر تھیں انہوں نے اپنے گھر سے آفس آنے کے لئے ایک ارب روپیہ ہیلی کاپٹر کا خرچ کر دیا۔ پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی نور عالم خان نے کہا کہ میں اس وقت پی اے سی کا چیئرمین ہوں، نہ تو ہم آفس میں چائے حکومت کے خرچے سے پیتے ہیں، نہ پانی ہوتا ہے نہ  بسکٹ، ہر خرچہ اپنی جیب سے کرتے ہیں، مہنگائی ہے میں خود پریشان ہوں، مفتاح بڑی بڑھکیں مارتے تھے، اب کہاں ہیں؟  ہم تو احتساب کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ میرے حلقے میں چھ سات دنوں سے بجلی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر عمرانی حکومت کی آئی ایم ایف کے ساتھ ڈیل ہے میں بار بار کہتا ہوں آپ یہ  یہاں پر لائیں، کیوں آپ قومی اسمبلی کو بتا نہیں رہے کہ وہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا تھا؟۔ وہ ایوان میں لانا چاہیے۔ وفاقی وزیر آبی وسائل سید خورشید شاہ نے کہا کہ ٹیل اینڈ پر پانی پہنچانے کے لئے اقدامات کئے جارہے ہیں، پانی کی کمی ایک مسئلہ ہے  الزام ہے کہ سندھ بلوچستان کو پانی نہیں دیتا۔ سید خورشید شاہ نے کہا کہ  بارشیں شروع ہو گئی ہیں اور امید ہے کہ اس سے صورتحال میں بہتری آجائے گی۔  اعتراض پر پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی غلام مصطفی شاہ نے کہا ہے کہ حکومت ملکی مسائل کے حل کے لئے اقدامات کر رہی ہے ۔ وزیر صنعت و پیداوار مرتضی محمود انڈونیشیا چلے گئے۔ انہوں نے اپنی جیب سے ٹکٹ اور قیام کا خرچہ ادا کیا۔ انڈونیشیا سے خوردنی تیل کی سپلائی بحال ہوگئی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن