کراچی کا معرکہ اور لاتعلق عوام
کراچی کے حلقے 240 کا ضمنی الیکشن متحدہ نے جیت لیا لیکن اتنے کم مارجن سے کہ یہ بات متحدہ کیلئے لمحہ فکر مندیہ و پریشانیہ کا باعث ہونی چاہیے۔ اس کے امیدوار نے اپنے حریف تحریک لبیک کے امیدوار کو محض 60 یا 65 ووٹوں سے ہرایا۔ اس بار اتنے کم ووٹ ڈالے گئے کہ ریاست کیلئے بھی تشویش کا لمحہ ہے۔ یعنی محض 8 فیصد۔ گویا 92 فیصد ووٹروں نے الیکشن سے لاتعلقی اختیار کی۔ اسے بائیکاٹ بھی کہا جا سکتا ہے۔ متحدہ کے امیدوار نے محض دس ہزار چھ سو تراسی اور لبیک نے دس ہزار چھ سو اٹھارہ ووٹ لئے۔
انتخابی عمل اور قومی سیاست سے کراچی والوں کی یہ لاتعلقی مایوسی کی علامت ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں لوگوں نے ووٹ کسی اور کو ڈالے لیکن سیٹیں پی ٹی آئی کو مل گئیں، وہ بھی دوچار یا پانچ سات نہیں، پوری سولہ۔ کراچی والے سر کھجاتے ہی رہ گئے کہ یہ کیا ہوا۔ وہ ابھی تک سر کھجانے میں مصروف ہیں، اس سے فارغ ہوں تو لاتعلقی کا یہ مرحلہ بھی طے ہو۔ بہرحال 16 سیٹوں والی پی ٹی آئی اس ضمنی الیکشن میں کسی کو دکھائی نہیں دی۔ کراچی سے بعض اقربا اور دوست گاہے گاہے لاہور آتے ہیں تو ایک ہی بات بتاتے ہیں کہ شہر کے چند پوش علاقوں کے سوا پی ٹی آئی ہر جگہ پردۂ غیب میں ہے کہ نہ کسی کو نظر آئی نہ کہیں نظر آتی ہے۔ خیر، یہ ایک ملک گیر تجربہ تھا۔ تجربہ کر کے پچھتانا تجربہ نہ کر کے پچھتانے سے بہتر ہے، ایسا کسی سیانے نے بتایا تھا۔
_______________
متحدہ بذاتِ خود زوال کی ایک منفرد کہانی ہے۔ کہاں سارے شہر میں صرف اسی کا ڈنکا بجتا تھا اور اس کے امیدوار ایک ایک لاکھ کی لیڈ سے جیتا کرتے تھے اور کہاں یہ عالم کہ حالیہ ضمنی الیکشن میں اس کا امیدوار شکست سے بال بال بچا۔ متحدہ کا حقیقی دھڑا تو بہت پہلے ہی بن چکا تھا جب اس کے قائد کراچی میں بذات خود موجود تھے لیکن چند سال پہلے ایک باغیانہ تقریر کے بعد انہیں عملاً سیاست سے غیر متعلق کر دیا گیا تو اس کے تین دھڑے ہو گئے۔ ایک مصطفی کمال کا، دوسرا متحدہ لندن کا اور تیسرا متحدہ پاکستان کا۔ کہا جاتا ہے کہ بہت سے اس کے حامی متحدہ چھوڑ کر لبیک والوں کو پیارے ہو گئے۔
متحدہ ایک ہی لیڈر کی مرہون منت تھی۔ پوری قیادت میں کوئی بھی لیڈر نہیں تھا چنانچہ اب یہ جماعت بے سمت بھی ہے، مضمحل بھی اور بڑی حد تک بے بس اور لاچار بھی۔
_______________
لبیک پنجاب میں بنی تھی لیکن اس کی زیادہ طاقت کراچی میں ہے۔ یہاں جے یو پی کے زوال کے بعد سنّی تحریک سامنے آئی۔ ایک بم دھماکے میں اس کی ساری قیادت شہید کر دی گئی جس کے بعد یہ جماعت بھی رفتہ رفتہ کمزور ہو کر پس منظر میں چلی گئی۔ اب لگتا ہے کہ یہ لبیک پُر کر رہی ہے۔ کراچی کے متعدد حلقوں میں اس جماعت نے مضبوط ووٹ بنک بنا لیا ہے، حلقہ 240 کا انتخاب اس کے لیے بہت اہم تھا، یہی وجہ ہے کہ اس کے قائد مولانا سعد رضوی صاحب خصوصی طور پر اس حلقے کو جیتنے کیلئے لاہور سے چل کر کراچی پہنچے اور انہی کی قیادت میں معرکے کا آخری مرحلہ لڑا گیا لبیک اور متحدہ والوں میں الیکشن کے روز تصادم بھی ہوا جس میں متحدہ کا ایک کارکن جاں بحق اور دونوں طرف سے کئی لوگ زخمی ہوئے۔
_______________
حیرت کی بات یہ ہے کہ کراچی کے اس معرکے میں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی بھی غائب رہی۔ جماعت اسلامی ایک زمانے میں کراچی کی سب سے بڑی پارٹی ہوا کرتی تھی، اب وہ بعض ’’ایشوز‘‘ پر چند مظاہروں کے سوا کچھ نہیں کرتی۔ اس کی الخدمت فائونڈیشن رفاہی سرگرمیوں میں سب سے آگے ہے لیکن جماعت کے ووٹ بنک کی نبض مدّھم ہے۔ پروفیسر غفور ، محمود اعظم فاروقی اور نعمت اللہ خاں اور ان جیسے بہت سے لیڈر جماعت میں ہوا کرتے تھے۔ اب حافظ نعیم الرحمن کے سوا کوئی بڑی شخصیت جماعت میں نظر نہیں آتی۔
پیپلز پارٹی کراچی کے ایک کونے پر کفایت کئے ہوئے ہے۔ مسلم لیگ ن نے عملاً اپنے سیاسی نقشے سے پورے سندھ کو خارج کر دیا ہے اور کراچی بھی اس میں شامل ہے۔ اس کی ساری توجہ محض پنجاب پر ہے۔ پورا ملک ہی سیاسی جزیروں میں بٹ گیا ہے یا بانٹ دیا گیا ہے، پھر سے قومی سیاست شروع ہو، اس کا امکان ہے تو سہی لیکن زیادہ نہیں۔
_______________
سابق وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے بارے میں رپورٹ آئی ہے کہ انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ ریکارڈ فضائی دورے کئے۔ اپنے ساڑھے تین سالہ دور میں انہوں نے 741 فضائی دورے کئے، ان پر 44 کروڑ سے زیادہ خرچہ ہوا اور مجموعاً وہ 755 گھنٹے ہوائوں میں رہے۔
755 گھنٹے۔ لیکن باقی مدّت بھی وہ سطح زمین پر ہونے کے باوجود خیالی فضائوں میں محو پرواز رہے۔ جتنی تعمیرات کیں، ہوائی قلعے ہی بنائے۔ ایک عمارت البتہ انہوں نے رحیم یار خاں میں ضرور بنائی جو مکمل ہونے سے پہلے ہی ریت کے قلعے کی طرح زمین بوس ہو کر صحرائی ریت میں مل گئی۔ ہزاروں ہوائی قلعوں میں محض ایک ریت کا قلعہ۔
سنا ہے آج کل بہت اداس ہیں۔ ایک نجومی کو بھی ہاتھ دکھایا کہ کیا پھر وزیر اعلیٰ بنوں گا؟ ۔ نجومی نے کیا کہا، یہ بات پریس میں نہیں آئی۔ قیادت کے رویے سے بھی دلبرداشتہ ہیں کہ پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر انہیں نہیں بنایا، ان کے ماتحت سبطین خان کو بنا دیا۔ دراصل جب تک وہ وزیر اعلیٰ تھے، وسیم اکرم پلس تھے۔ اب مائنس ہو گئے ہیں لیکن جس طرح خاں صاحب کو اپنے مائنس ہونے کا ابھی تک یقین نہیں آ رہا، انہیں بھی نہیں آ رہا؎
بہل جائے گا دل بہلتے بہلتے
ان کی خاص ضرورت پی ٹی آئی کو اس لیے نہیں رہی کہ دراصل وہ وزیر اعلیٰ تھے مگر محض چلمن تھے جس کے پیچھے اصل وزیر اعلیٰ کوئی اور تھا (کچھ کا خیال ہے کہ ) جو پس چلمن تھا، وہ نہیں رہا یا نہیں رہی تو چلمن کی ضرورت بھی ختم ہو گئی۔
_______________
وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے امریکہ اور بھارت سے تجارتی تعلقات بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔
امریکہ تو ٹھیک لیکن کون سا بھارت؟ بی جے پی والا بھارت تو پاکستان کانام سننے کو تیار نہیں اور مسلمانوں کا وجود بھی برداشت نہیں کر رہا، ہر روز بھارتی مسلمانوں کے گھر گرائے جا رہے ہیں۔ محترم بلاول صاحب ، ذرا وقت گزرنے دیں، بی جے پی کا برانڈ اپنی مدّت پوری کرنے کے قریب ہے۔ کچھ انتظار بہتر ہے۔ اس دوران امریکہ سے تجارت بڑھانے کی کوشش کر دیکھیں۔