بی بی شہید نے مجید نظامی کو بے باک اور بے لاگ صحافی قرار دیا
اسلام آباد (عترت جعفری)پاکستان پیپلز پارٹی کی تیسری چیئر پرسن اور سابق وزیر آعظم محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی سال گرہ کا روز اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل کے ان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد بھی ان کے والد کی قائم کردہ جماعت موجود ہے تاہم یہ اور بات ہے کہ وہ اپنی کھوئی ہوئی آب وتاب کو بحال کرنے کے لئے جدوجہد کر رہی ہے،شہید کے بیٹے بلاول بھٹو زراداری ملک کے وزیر خارجہ بن گئے ہیں اور عملی سیاست میں ہیں،ان کی بیٹی آصفہ بھٹو زرادری بھی سیاست میں آچکی ہیں اور آئندہ انتخابات سندھ سے لڑنے کا ارادہ رکھتی ہیں،بے نظیر بھٹو جو دوبار وزیر آعظم رہیں ،نے جب اپارٹی کی قیادت کا سنبھالا تھا تو جماعت ایک مشکل سے گزر رہی تھی،انہوں نے مارشل لاء کا مقابلہ کیا اور اس وران نظر بندرہیں اور انھیں دوبار جلا وطنی بھی اختیار کرنا پڑی ،دوسری بار وہ آج کی حلیف جماعت کے دور میں جب ان کے خلاف لاہور،راولپنڈی ،کراچی میں احتساب بنچز میں مقدمات چلائے جا رہے تھے اور ایسا کئی بار ہوا کہ ایک مقدمہ راولپنڈی میں لگا ہو تھا رو دوسرا کراچی یا لاہور میں اسی روز سماعت کے لئے رکھا گیا تھا ،اوہ اپوزیشن لیڈر بھی تھیں تاہم وہ عدالت مین پیش ہوتیں جبکہ سابق صدر آ صف علی زرداری کو جیل سے ان عدالتوں میں پیش کیا جاتا تھا ،ہائی کورٹ کے پنڈی بنچ میں جب آتیں تو اخبار نویسوں کے ساتھ بار روم میں بیٹھ کر بات چیت کیا کرتیں اور چائے نوش کی جاتی تھی ،وہ طبعیت کے لحاط سے بہت سادہ خاتون تھیں اور اپنے ہاتھوں سے چائے بنا کر اخبار نویسوں کے پلایا کرتی تھیں ، نوائے وقت کے چیف ایڈیٹر محترم مجید نظامی مرحوم و مغفور کا ذکر کرتیں اور ان کو بے باک اور بے لاگ صحافی قرار دیا،ایک بار کچھ اسلام آباد میں قومی اسمبلی میں مصروفیت تھی تو عدالت میں مقدمہ کی سماعت کے بعد جانے لگیں تو اخبانویسوں سے کہا کہ آپ آصف زراداری کو کچھ کمپنی دیں،آٖصف زراداری منتظر تھے کہ ان کو پولیس جیل لے جائے ،آج ان کا بیٹا بلاول بھٹو پارٹی کا چیئرمین ہے اور پارٹی کی ساکھ اور خاص طور پر پنجاب میں بحال کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے ،1953کوکراچی میں ذوالفقارعلی بھٹو کے گھر پیدا ہونے والی بینظیر بھٹو نے برطانیہ اور امریکا میں اعلی تعلیم حاصل کی۔ابھی انہوں نے اپنی تعلیم مکمل کی ہی تھی ۔1986میں بے نظیر بھٹو وطن واپس آئیں اور 1987میں آصف علی زرداری سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ان کی لیاقت باغ کے میدان میں شہادت سء منسلک بہت سے اسرار منسلک ہیں جن کا پردہ ابھی اٹھنا باقی ہے ،ان کا مقدمہ جس طرح سے لڑا گیا اس پر بھی سولات موجود ہیں ۔