آئی ایم ایف سے معا ئدہ ایک آدھ دن میں : مفتاح
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+نوائے وقت رپورٹ) وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ امید ہے آئی ایم ایف پروگرام ایک آدھ دن میں بحال ہو جائے گا، آئی ایم ایف کو ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے اور 12 لاکھ آمدن پر انکم ٹیکس چھوٹ پر کوئی اعتراض نہیں،ہماری طرف سے دی گئی 12 لاکھ سالانہ آمدنی پر انکم ٹیکس کی چھوٹ برقرار رہے گی۔وزیر خزانہ نے ان خیالات کا اظہار میڈیا سے گفتگو اور سینٹ فنانس کمیٹی کے اجلاس میں کیا ،سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سابق وزیر خزانہ اور رکن کمیٹی شوکت ترین اور دیگر ارکان نے شرکت کی۔اجلاس میں سینٹ کمیٹی کی سفارشات کو حتمی شکل دے دی گئی جن کوآج سینٹ میں پیش کیا جائے گا اور ایوان کی منظوری کے ساتھ ان کو قومی اسمبلی کو بھیج دیا جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ آئندہ مالی سال ساڑھے چھ ارب ڈالر کا خوردنی تیل درآمد آنے کا تخمینہ ہے۔اس کے لئے ڈالر کہاں سے آئیں گے،آپ کی بات میں وزن ہے لیکن پیسوں کی بہت ضرورت ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت نے خالی پلاٹ پر تعمیرات شروع کرنے پر ٹیکس چھوٹ دے دی، خالی پلاٹ پر تعمیرات شروع کر دی جائیں تو کوئی ٹیکس نہیں لیں گے، آپ پہلی اینٹ لگا دیں ٹیکس ختم کر دیا جائے گا، جب تک زمین کا قبضہ اور تعمیر کی اجازت نہیں ملتی ٹیکس نہیں لیں گے، قبضہ ملنے اور تعمیرات شروع نہ کرنے پر ٹیکس لاگو ہوگا۔وزیر خزانہ نے خالی پلاٹ مخصوص مدت تک رکھنے کی اجازت دینے کی تجویز سے اتفاق کیا ہے۔کمیٹی نے سفارش کی کہ 30 کروڑ پر ٹیکس کی بجائے اس سے زائد آمدن پر ٹیکس عائد کیا جائے۔وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا ہے کہ امید ہے آئی ایم ایف پروگرام ایک آدھ دن میں بحال ہو جائے گا، آئی ایم ایف کو ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے اور 12 لاکھ آمدن پر انکم ٹیکس چھوٹ پر کوئی اعتراض نہیں۔ یہ بات انہوں نے پارلیمنٹ ہاؤس میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ امید ہے آئی ایم ایف پروگرام ایک آدھ دن میں بحال ہو جائے گا، آئی ایم ایف کو ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے پر کوئی اعتراض نہیں اور اسے 12 لاکھ آمدن پر انکم ٹیکس چھوٹ پر بھی اعتراض نہیں ہے، ہماری طرف سے دی گئی 12 لاکھ سالانہ آمدنی پر انکم ٹیکس کی چھوٹ برقرار رہے گی۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ غریب عوام کو ریلیف ملے گا اور امیروں پر ٹیکس لگے گا، فارما سیوٹیکل کمپنیز کے ریفنڈ آئندہ چار روز سے ادا کرنے شروع کردیں گے، اگر چار دنوں میں ریفنڈ کی سلسلہ شروع نہ ہوسکا تو آئندہ دو ماہ میں پیسے کلئیر کر دیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ فنانس کمیٹی نے تجویز دی ہے کہ 30 کروڑ روپے پر ٹیکس نہ لگایا جائے اور 30 کروڑ روپے سے زائد کی آمدن پر ٹیکس عائد کیا جائے، بات تو ٹھیک ہے مگر اس وقت رقم کی زیادہ ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف ٹیکس بڑھانے پر ناراض ہوجاتے ہیں اور وہ بار بار ٹیکس کم کرنے پر زور دے رہے ہیں، وزیراعظم سے کہتا ہوں کہ اگر ٹیکس نہ بڑھاؤں تو آمدنی کیسے بڑھے گی۔ مفتاح اسماعیل نے انکشاف کیا کہ گزشتہ مالی سال صرف 14 سے پندرہ کلوگرام سونا قانونی طریقے سے پاکستان آیا جب کہ ہر سال 80 ٹن سونا ملک میں سمگلنگ سے آ رہا ہے، جیولرز ایسے بھی ہیں جن کی روزانہ کروڑ روپے سے زائد کی آمدنی ہوتی ہے، جب دکاندار سے پوچھا تو کہا روزانہ چار ہزار کی سیل ہوتی ہے۔ قبل ازیں سلیم مانڈوی والا کی زیر صدارت قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا اجلاس ہوا جس میں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل، سابق وزیر خزانہ اور رکن کمیٹی شوکت ترین اور دیگر نے شرکت کی۔ اجلاس میں کمیٹی کے رکن شوکت ترین نے کہا کہ ہم نے فارماسیوٹیکل کمپنیز کے لیے سیلز ٹیکس کو دستاویزی بنانے کے لیے کام کیا، ادویات سازی کے ساتھ وہی فیکٹری جوسز بنا رہی ہے، ادویات ساز میک اپ کا سامان بنارہے ہیں اور سیلز ٹیکس نہیں دیتے، اگر انہیں 17 کی بجائے کم سیلز ٹیکس لگائیں گے تو یہ ادا ہی نہیں کریں گے۔ شوکت ترین نے کہا کہ ایف بی آر نے ریفنڈ کا نظام خودکار بنایا ہے، اگر فارما والوں کا ریفنڈ رک گیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ان کی ڈاکیو منٹیشن پوری نہیں، حکومت کو اس طرح کے مشکل فیصلوں سے واپس نہیں ہٹنا چاہیے۔ اجلاس کے دوران ممبران کمیٹی اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ کمیٹی ممبران نے وزیر خزانہ سے کہا کہ وہ غریبوں پر ٹیکس عائد کرنے سے اجتناب کریں۔ چیئرمین کمیٹی سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ بجلی کا یونٹ تین سو سے اوپر جس کا ایک بھی ہندسہ جاتا ہے تو اسے ساری مالیت پر ٹیکس دینا ہوگا۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ آپ کی بات میں وزن ہے لیکن پیسوں کی بہت ضرورت ہے۔ شوکت ترین نے کہا کہ آپ غریبوں کے بجائے کسی اور کی جیب کاٹیں جس پر وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ وہ بھی کاٹیں گے آپ بے غم رہیں۔ مفتاح اسماعیل کے شوکت ترین کو جواب پر اجلاس میں قہقہے لگے گئے۔