بی جے پی یہ تو نے کیا کر دیا
ہر روز مہنگائی کی شرح بڑھنے کی خبریں چھپ رہی ہیں لیکن کوئی انہیں پڑھتا نہیں ہے۔ لوگ مہنگائی کو بالمشافہ دیکھ رہے ہیں۔ اس کے سیلاب میں ڈوبے ہوئے ہیں اور سیلاب میں ڈوبے ہوئے کو یہ جاننے میں کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ پانی کا ریلا کتنے کیوسک کا ہے اور اس کی سطح اب اونچی ہوکر کتنے فٹ اور کتنے انچ ہو چکی ہے۔ اسے محض یہ انتظار ہوتا ہے کہ کب کوئی لانگ بوٹ پہن کر افسروں کے ہمراہ ڈوبی شاہراہوں اور آبادیوں میں نکلے گا اور پانی کا نکاس کروائے گا اور کب اس کی جان بچے گی اور فی الوقت صورتحال یہ ہے کہ کسی کو لانگ بوٹ مل ہی نہیں رہے۔ ملنا کیا ہے، ابھی کسی نے انہیں ڈھونڈنے اور ڈھونڈ کر پہننے اور پہن کر باہر نکلنے کا سوچا ہی نہیں۔
٭…٭…٭
مہنگائی کا سیلاب ہے اور توانائی کا طوفانی بحران۔ پنجاب میں رات 9 بجے دکانیں بند کرنے کا فیصلہ ہوا ہے تاکہ بجلی کی کچھ بچت ہو لیکن تاجروں کا ایک دھڑا اسے ماننے کو تیار نہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ بڑے افسروں کو جو اربوں روپے کی مفت بجلی دی جاتی ہے وہ بند کی جائے۔ بچت کا بہتر طریقہ یہی ہے، یہ ان کا کہنا ہے۔
اور ہمارا کیا ہے کہ دونوں ہی کام ہونے چاہئیں۔ سندھ میں دکاندار 8 بجے دکانیں بند کرنے پر راضی ہو گئے تو پنجاب حکومت ایسا کرانے کی اہل کیوں نظر نہیں آرہی۔ وہاں کے تاجر مان گئے، یہاں کے کیوں نہیں مان رہے؟ دوسری طرف، افسروں والی بات بھی اہم ہے۔ پتا نہیں کتنے ارب کی بجلی انہیں مفت دی جاتی ہے حالانکہ ان کی تنخواہیں اتنی زیادہ ہیں کہ وہ بجلی کا بل بڑی آسانی سے اٹھا سکتے ہیں۔ سو سو اور اسی اسی کنال کے گھر ان کے پاس ہیں۔ ان کے مالیوں، باورچیوں، ڈرائیوروں، چوکیداروں، صاف صفائی کرنے والے ملازموں، کتے نہلانے اور ٹہلانے والوں غرض ہر طرح کا کام کرنے والے ملازموں کی تنخواہیں بھی سرکار بھرتی ہے۔ محض اس کا خرچہ بھی اربوں میں ہے اور مل ملا کر سینکڑوں ارب کی وہ رقم ہے جوغریبوں پر ٹیکس لگا کر ان کی جیبیں خالی کراکے وصول کی جاتی ہے۔ غریب عوام 80 فیصد ہیں۔ وہ شب سمور نہیں مانتے لیکن آج کی صورتحال یہ ہے کہ انہیں شب تنور سے بھی محروم کیا جا رہا ہے۔ وہ وصلِ لیلیٰ کے طلبگار نہیں کہ انہیں محض اپنے بچوں کی نم آنکھوںکو خشک کرنے والا رومال درکار ہے۔
اور یہ قصہ آج کا نہیں، عشروں پرانا ہے۔ نسل در نسل ایک ہی کہانی ہے۔ چہرے بدلتے ہیں، نظام نہیں بدلتا۔ فصلِ گل آتی ہے، پھولوں سے شجر لد جاتے ہیں، لیکن سب پہلے سے بھرے ہوئے دریاؤں میں ڈل جاتے ہیں۔ عوام بدستور محروم اور محروم سے محروم تر:
صد غنچہ بشگفت الا دلِ من
اے وا دلِ من ! اے وا دلِ من
یعنی اردو میں کچھ یوں کہہ لیں:
آئی بہار پھول کھلے باغ میں مگر
غنچہ ہمارے دل کا ابھی تک کھلا نہیں
اور کلی کھلنے کی بات ہی کیا، وہ تو مرجھاتے مرجھاتے اتنی مرجھا گئی کہ اب شاخ سے ٹوٹ گرنے کو ہے۔ بجٹ کی ہر بہار طبقہ مسرت مآب کیلئے ہے۔ اس بجٹ میں بھی ایگزیکٹو افسروں کی تنخواہوں میں سے گوناگوں الائونسز اور مراعات میں اضافہ ہو گیا۔ مہنگے پٹرول کا کوٹہ بھی بڑھ گیا۔ چند روز پہلے خبر تھی کہ مراعات یافتہ طبقے کو مزید کئی سوارب روپے کی چھوٹ اور مراعات دی گئی ہیں اور اب مراعات کی کتاب کے سرورق پر غریب عوام کو ریلی کے الفاظ خوشنما حرفوں میں لکھے ہیں۔رہے نام اشراف کا!
٭…٭…٭
شیخ رشید نے پھر اپنا تکیہ کلام دہرایا ہے۔ عمران خان کے یوم احتجاج پر انہوں نے اپنا ننھا منا سا احتجاجی جلسہ لال حویلی کے باہر سجایا۔ حاضرین کم تھے، شیخ صاحب مایوس ہوئے۔ بارش ہو گئی۔ رہے سہے بھی بھی گئے، شیخ صاحب مزید مایوس ہوئے۔ بہرحال خطاب فرمایا اور کہا، اسمبلی پر لعنت بھیجتا ہوں۔ اسمبلی نواز احباب کو آزردہ خاطر ہونے کی ضرورت نہیں۔ شیخ صاحب کا یہ تکیہ کلام ہے۔ اگرچہ نتیجہ خیز ہے۔ اس طرح کہ جس اسمبلی پر بھی انہوں نے لعنت ارسال فرمائی، اس نے مدت پوری کی۔ جس کے خاتمے کی نوید سنائی، وہ پہلے سے تگڑا ہوا اور جس کیلئے قصیدہ گوئی کی، وہ نشان عبرت بنا۔ سب آپ کے سامنے ہے، ملاحظہ فرما لیجئے۔ دبئی کا وہ بستر نشین بھی انہی میں شامل ہے جو نشان عبرت بنے۔ کچھ بن چکے، کچھ تیار بیٹھے ہیں۔ شیخ جی کے رویہ سے بھی دلبرداشتہ ہیں۔ شہِ والا آف بنی گالہ کی طرف اشارہ ہے کہ انہوں نے مقربین کی فہرست سے خارج کر دیا ہے۔ ہر چند یہ خوشنودی کی نشاۃ ثانیہ کیلئے سعیِ مکرر کرتے ہیں لیکن وہ کلیجے پر ہاتھ نہیں رکھنے دیتے۔ شکایت کئی طرح کی ہیں البتہ ایک معاملہ کچھ یوں بھی ہے کہ
آپ کیا ہم پہ مہربان ہوں گے
آپ کی زلف خود پریشان ہے
٭…٭…٭
مسلم لیگ کے ایک اور منحرف رکن کی واپسی ہو گئی۔ میر جلیل احمد شرقپوری نے گزشتہ روز وزیراعلیٰ حمزہ سے ملاقات کی اور ان کی قیادت پر اعتماد کا اظہار کیا۔ خبر میں صرف ’قیادت‘ لکھا ہے، ولولہ انگیز قیادت کے الفاظ نہیں ہیں لیکن ظاہرہے ہر قیادت ولولہ انگیز ہی ہوا کرتی ہے۔ میر صاحب کچھ اصولی اختلافات کی بنا پر منحرف ہوئے تھے اور عمران خان کی ولولہ انگیز قیادت کے حلقہ بگیر ہو گئے تھے۔ اصول تو اصول ہوتے ہیں، ان پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لیکن جب ان کی حکومت رخصت ہو گئی اور دو ماہ گزرنے کے بعد پتا چلا کہ اب واپس آنے کی نہیں تو میر صاحب غورکیا اور جب غور کیا تو پتا چلا کہ ان کے اختلافات اصولی نہیں بلکہ فروعی تھے، اس پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا لیکن فروع پر ہو سکتا ہے چنانچہ انہیں مزید احساس ہوا کہ اصل ولولہ انگیز قیادت تو شہبازشریف کی ہے چنانچہ وہ واپس آگئے، اتنی سی بات ہے۔
٭…٭…٭
بھارت کے شہر بریلی میں لاکھوں مسلمانوں نے مظاہرہ کیا۔ اتنا بڑا مظاہرہ شمالی ہند میں آج تک نہیں ہوا۔ مسلمانوں کا نہیں، کسی بھی پارٹی کا۔ ممبئی میں اس سے بھی بڑا جلسوس نکلا۔ صحیح معنوں میں ملین مارچ۔ بھارت کے سہمے مسلمان کبھی بھی مظاہروں پر آمادہ نہیں ہوتے تھے۔ اب جو تبدیلی آئی ہے تو بی جے پی سوچ رہی ہے کہ یہ ہم نے کیا کر دیا۔ مسلمانوں کو جرأت مل گئی۔ بہت ہی برا ماجرا ہو گیا۔