گاڑی چل ہی نہیں رہی!
اپریل کی رات 12بجے مارگلہ سٹیشن کے پنڈی پلیٹ فارم سے جس گاڑی کو روانہ کیا تھا اس گاڑی کو روانہ کرتے وقت شادیانے بجائے گئے تھے، خوشیاں منائی گئیں تھی، مارگلہ سٹیشن کے ماحول سے ایسا لگ رہا تھا جیسے ایک ڈبے میں حجاج کرام سوار تھے، دوسرے ڈبے میں نیک اور بابرکت تاجر سوار تھے، تیسرے ڈبے میں چند باریش ایک مولانا کی قیادت میں تشریف فرما تھے، چوتھے ڈبے میں کچھ صوبائیت اور لسانیت پسند بیٹھے تھے، پانچواں ڈبا منحرفین سے بھرا پڑا تھا اور ان سب کے لبوں پر ایک ہی گیت تھا "سانوں وی لے چل نال وے، بابو سوہنی گڈی والیا"۔
گاڑی تو اسلام آباد سے چلی تھی مگر اسلام آباد کے قریبی شہر پنڈی ہی سے میں یہ کیا سن رہا ہوں کہ پہلے والی گاڑی بہت اچھی تھی، سفر بھی سستا تھا، کھانا بھی ملتا تھا، چائے بھی ملتی تھی اور ہر سٹیشن پر اترنے والے مسافروں کیلئے، جن کے پاس کوئی جگہ نہیں ہوتی تھی ان کیلئے پناہ گاہ موجود ہوتی تھی، بھوکوں کیلئے لنگر خانے موجود ہوتے تھے۔ مگر اس گاڑی میں تو بڑا خوفناک منظر ہے، ہر وقت جیب کٹنے کا دھڑکا لگا رہتا ہے۔ جس ڈبے میں لگتا تھا حجاج سوار ہیں وہاں تو سارے اپنی اپنی ایف آئی آر لے کر بیٹھے ہیں، ہر ایک نے کسی نہ کسی افسر کو پکڑا ہوا ہے کہ میری یہ ایف آئی آر خارج کرو، وہ ایف آئی آر خارج کرو، ایسا لگتا ہے کہ یہاں کوئی خارجیوں کی بحث ہو رہی ہے۔ ایسے میں ایک افسر گردن نیچے کیے کچھ سوچ رہا ہے، اسے اسکے ساتھیوں نے پوچھا: سر خیر تو ہے؟ اس نے کہا: میرے دل کو تکلیف ہے کہیں میں خارج نہ ہو جاؤں۔ آئیے ، ہم دوسرے ڈبے کی طرف رخ کرتے ہیں، پتا نہیں ان لوگوں کے ساتھ کس نے وعدے وعید کیے تھے، یہ لوگ پہلے بہت خوش تھے، اب کہتے ہیں کہ کس گاڑی میں بیٹھ گئے ہیں، اس ڈبے کا تو کوئی بلب جلتا ہی نہیں، کوئی جل بھی جائے تو دس منٹ بعد بجھ جاتا ہے، نہ یہاں کھانا ملتا ہے، نہ چائے ملتی ہے، ہر دو گھنٹے بعد کوئی نا کوئی نیا بل تھما جاتے ہیں، اس ڈبے کے ساتھ چار سپاہی ہیں جو کہتے ہیں کہ رات 9بجے کے بعد کھانا، پینا، سونا، حتیٰ کہ رونا بھی منع ہے۔ تاجر آپس میں باتیں کرتے ہیں کہ سرِ شام ہی اتنی خاموشی کیوں ہو جاتی ہے، تاجر آپس میں کپکپاتے ہوئے کہتے ہیں "ارے خاموشی نہیں، اب تو شہر خاموشاں ہے"۔
مارگلہ سٹیشن سے چلتے وقت تیسرے ڈبے میں باریش اور دینی لوگ سوار ہوئے تھے۔ جہاں پہلے حلوہ کھایا جا رہا تھا اب وہاں بھی خاموشی طاری ہے، میں نے بڑے مولانا کے بارے میں دریافت کیا تو بتایا گیا کہ وہ چلہ کاٹ رہے ہیں، اب وہ کافی عرصے تک عوام میں نہیں آئینگے۔چوتھے ڈبے میں سوار لسانیت پسند بھائیوں کے شکوے حیدرآباد اور کراچی سے آگے نہ نکل سکے، انکے گلے پرانے دوستوں کے ساتھ ہیں، علاقائیت پسندوں کا کیا کہوں، انکے بال مدینہ میں بھی نوچے گئے، یہ الگ بات ہے کہ بال نوچنے والوں کے نمائندے گاڑی کے پہلے ڈبے میں سوار ہیں۔
پانچویں ڈبے میں سوار لوگ بھی سرگوشیاں کر رہے ہیں، ایک کہتا ہے، ہم نے یہ سب کچھ کر کے کیا پایا، دوسرا کہتا ہے، مشہوری تو ٹھیک ٹھاک ہو گئی ہے نا، میڈیا پر تو چل گیا ہے نا کہ کس نے کتنے کتنے پیسے لیے ہیں، ایک کہنے لگا کہ ہم تو ویسے بھی چوتھے ڈبے والے ہیں، جس کا ٹکٹ ملا وہاں چلے گئے، مگر ادھر ایک بندے نے خوف ناک منظر پیش کر کے سب کو رلا دیا ہے کہ یار انڈے، ٹماٹر کون کھائے گا، اتنے میں ایک خاتون بولی کہ میں اپنے ایک عزیز کی شادی میں گئی تھی اور مجھے انہوں نے گاڑی سے نہیں اترنے دیا، اور کہا کہ بی بی یہیں سے واپس چلی جاؤ، خواہ مخواہ آپ کی بے عزتی ہو جائیگی۔ اس ڈبے میں سوار سب مسافروں نے اپنے پہلوان لیڈر کی طرف دیکھا تو اس نے کہا کہ تم ہی پنجابی میں گیت گاتے تھے کہ سانوں وہ لے چل نال وے، بابو سوہنی گڈی والیا۔ لیڈر نے اپنی طرف سے خالص لکھنوی انداز اپنایا اور کہا کہ کوئی آپ کی فوٹو پاڑے تو آپ بھی اس کی فوٹو پاڑ دیں، راجوں کے دیس میں ایسا ہی ہوتا ہے۔
ٹرین ابھی راستے میں ہی ہے۔ ڈرائیور بیچارہ کیا کرے، ٹی ٹی سیٹیاں بجا رہا ہے، مگر کیا کیا جائے کہ گاڑی کو ہر طرف سے سرخ جھنڈی دکھا دی گئی ہے، گاڑی چل ہی نہیں پا رہی، پتا نہیں گاڑی میں پٹرول پورا نہیں ہے، جن ملکوں سے پٹرول ملنا تھا وہاں سے مل نہیں سکا، جن ملکوں سے پٹرول کے پیسے ملنے تھے وہ بھی نہیں ملے۔ اس دوران کوئی امدادی پیکیج بھی نہیں مل سکا، گاڑی کا ڈرائیور پریشان ہے، گاڑی کا فنانس منیجر مسکراتا ہے اور خرچے بڑھاتا جاتا ہے۔ پہلے ڈبے میں مسافروں کے اوسان خطا ہو گئے ہیں، وہ کبھی کچھ کہتے اور کبھی کچھ۔ پوری گاڑی پریشانی کی تصویر بنی ہوئی ہے کیونکہ اگلے سٹیشن پر مزدوروں، کسانوں، بے روزگاروں اور پڑھے لکھے نوجوانوں کا ایک ہجوم کھڑا ہے۔ ہجوم کے ہاتھوں میں پتھر ہیں، انڈیں ہیں، ٹماٹر ہیں، گاڑی کو شاید اسی پریشانی نے روک رکھا ہے ، گاڑی چل ہی نہیں رہی، رک گئی ہے۔