• news

ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت زار

ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ روا رکھاجانے والا سلوک کبھی بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں رہا،1947ء میں قیام پاکستان کے بعد ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کے ساتھ ہمیشہ ظلم وزیادتی ہوتی رہی ہے۔ ہندو مسلم فسادات تو ایک معمول کی بات ہے، ان میں وقفہ تو آتارہتاہے مگر یہ کبھی مستقل طور پر رکے نہیں، جب بھی مسلم کش فسادات ہوتے ہیں ان میں ہندوستان کی حکومت کا بالواسطہ یا بلاواسطہ کردار رہاہے، بالخصوص انتہاپسند ہندوجماعت بی جے پی کے بر سراقتدار آنے کے بعد تو ظلم وستم کا یہ سلسلہ تواترکے ساتھ جاری رہتاہے، نریندرمودی تو ویسے بھی مسلم دشمنی میں ہمیشہ پیش پیش رہاہے بطور وزیراعلیٰ گجرات اسکے دور حکومت میں صوبہ گجرات میں بدترین فسادات ہوئے جس میں سینکڑوں مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کیا گیا جبکہ انکے گھروں کو مسمار اور دوسری جائیداد بشمول کاروبار تباہ کردیئے گئے۔ ان فسادات میں مودی اور اسکی جماعت کے چند سرکردہ راہنمائوں کے نام بھی سامنے آئے مگر کسی کے خلاف بھی کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ یاد رہے ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد بیس کروڑ سے بھی زیادہ ہے جوکہ مجموعی آبادی کا تقریباً  17%بنتے ہیں۔ عام انتخابات میں مسلمانوں کے ووٹ کسی بھی جماعت کو جتوانے یا ہرانے میں فیصلہ کن کردار ادا کرسکتے ہیں مگر ووٹ لینے کے بعد ان کی قدر کوئی نہیں کرتا۔
مسلمانوں کے ساتھ ہونیوالا ظلم صرف جانی نقصان تک محدود نہیں بلکہ ہرشعبہ زندگی میں انکے ساتھ ناانصافی ہوتی چاہیے وہ ملازمتوں کا حصول ہویا پھر اسمبلی میں نمائندگی کا مسلمانوں کے کاروبار تباہ کردیئے جاتے ہیں ان کی عزتیں محفوظ نہیں، غرضیکہ ان کیلئے زندگی اجیرن بناکے رکھ دی گئی ہے، یہاں یہ امر قابل ذکرہے کہ باوجود اس ناانصافی اور ظلم وستم کے مسلمانوں نے زندگی کے ہرشعبے میں ہندوستان کی ترقی میں اپنا بھرپور اور اہم کردار ادا کیا ہے، ان کی ان خدمات کی کبھی بھی قدر نہیں کی گئی۔ بی جے پی کا تونظریہ ہی انتہاپسندی اور مسلم دشمنی پر محیط ہے جس کی وجہ سے گزشتہ آٹھ سال سے جب سے نریندر مودی برسراقتدار ہے مسلمانوں کے ساتھ زیادتیوں کے واقعات اب معمول کی بات ہے، بی جے پی کے اہم راہنما براہ راست طور پر ان واقعات میں ملوث نظرآتے ہیں۔ اترپردیش جوکہ آبادی کے لحاظ سے ہندوستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور وہاں سب سے زیادہ تعداد میں مسلمان آباد ہیں وہاں حال ہی میں ہونیوالے اسمبلی انتخابات میں ایک بھی مسلمان کو بی جے پی کا ٹکٹ نہیں دیاگیا۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ نریندرمودی مسلمانوں کوکسی بھی اہمیت والی جگہ پر نہیں دیکھنا چاہتا۔
مسلمانوں کو نماز کی ادائیگی سے روکنا، ان کے مذہبی مقامات کی بے حرمتی کرنا مسلمان خواتین کو حجاب پہننے سے زبردستی روکنا اور گوشت کے کاروبار سے منسلک مسلمانوں کو زبردستی اس کام سے روکنے جیسے واقعات اب ایک عام سی بات ہے، مسلمان اکثریت والے علاقوں میں غیرمسلم اہلکار اور آفیسر تعینات کرکے زبردستی اس ایجنڈے پر عمل کیاجارہاہے، مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کے ساتھ مسلسل روا رکھاجانے والا سلوک اب سب کے سامنے ہے، مسلمانوں سے منسوب علاقوں کے تاریخی اور صدیوں پرانے نام تبدیل کئے جارہے ہیں، ملازمتوں میں ان کا کوٹہ ختم کیاجارہاہے اور انہیں یہ احساس دلایاجارہاہے کہ وہ دوسرے درجے کے شہری سے بھی بدترہیں، گزشتہ دنوں حکمران جماعت بی جے پی کے دو رہنمائوں نے نبی مکرم حضرت محمدﷺ کی ذات اقدس کے بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ بولے جن کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے، پاکستان سمیت دنیا بھر سے اس فعل کیخلاف بھرپور ردعمل آیامگر ہندوستان کے رویئے میں کوئی فرق نہیں آیا۔ اس کیخلاف ہندوستان کے طول وعرض میں بھی احتجاج اور مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا، اس احتجاج کو کچلنے کیلئے بدترین ریاستی دہشت گردی کا مظاہرہ کیاگیا۔ مسلمان بچوں اور بچیوں کیخلاف ریاست کی بھرپور طاقت کا استعمال کیاجارہاہے انکے گھر مسمار کئے جارہے ہیں، کاروبار تباہ کئے جارہے ہیں، کئی لوگ جان کی بازی بھی ہارچکے ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس معاملے پر اپنی آواز بھی اٹھارہی ہیں جبکہ چند مسلمان ممالک بشمول پاکستان کی طرف سے بھی ہندوستان کی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جارہاہے، ،مگر نریندر مودی اور اسکی حکومت ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔ 
دُوسری طرف مقبوضہ کشمیر جیسے مسلمان اکثریت والے علاقے میں بھی ایک باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کیا جا رہا ہے تاکہ وہاں پر بھی ایک ہندو وزیراعلیٰ مسلط کیا جاسکے۔ بدنصیبی کی بات تو یہ ہے کہ اس ظلم و جبر کے ماحول میں چند ضمیر فروش مسلمان سیاست دان اور دانشور بھی ذاتی مفاد کیلئے ہندوستان کی انتہا پسند حکومت کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ اسلامی دنیا کو بالخصوص اور اقوام عالم کو بالعموم اس ظلم اور زیادتی کے خلاف بھرپور آواز اٹھانی چاہیے بصورت دیگر ایک انسانی المیہ جنم لے سکتاہے ۔

ای پیپر-دی نیشن