پہلے وہ کمٹمنٹ پیدا کریں
اکیسویں صدی کا آغاز تھا جب پاکستان کو درپیش مسائل میں دہشت گردی سے چھٹکارا سب سے بڑا مسئلہ تھا جبکہ ملکی بقاء کی خاطر دہشت گردی کی عفریت سے نمٹنا سیاسی و ملٹری قیادت کی اولین ترجیح بھی شمار ہوتا تھابلاشبہ اس ترجیح کی بنیاد ملکی و قومی سلامتی میں پنہاں تھی ورنہ ہمارے پڑوسی ملک افغانستا ن کے موجودہ حالات کوئی ڈھکے چھپے نہیں۔ اگرچہ پاکستان پر اللہ کے خاص فضل، سول ملٹری کمٹمنٹ اور عوامی سطح پر قومی اداروں سے بھرپوراظہار ِیکجہتی کا صلہ تھا کہ آج دہشت گردی کا شمار پاکستان کے اولین چیلنج کے طورپر نہیں ہوتا اس طرح پاکستان کاؤنٹر ٹیرارزم کے مراحل کو کامیابی سے عبور کر کے پوسٹ ٹیرارزم دور سے گزر رہاہے۔ دہشت گردی کے خلاف کامیابی کے پیچھے جو عوامل کارفرماں نظر آتے ہیں وہ بطور قوم باہمی کمٹمنٹ کے ساتھ ساتھ ملٹری پروفیشنلزم کی موجودگی تھی۔ تاہم آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی جیسے چیلنج سے تو نمٹنے میں کامیاب ہو گیا لیکن معاشی اورکرپشن کے خاتمہ جیسے چیلنجز کا سامنا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ 76سال گذرنے کے باوجود پاکستان کا شمار کمزور سطح پر ترقی پذیر ممالک میں ہی ہوتا ہے۔ فی الوقت اگر پاکستان کو اندرونی طور پر درپیش چیلنجز کا موازنہ کیا جائے توممکنہ طور پر سب سے بڑا چیلنج ’کرپشن‘ ہے۔ قیام ِ پاکستان سے تاحال کرپشن کی لعنت سے چھٹکارا پانے کی تگ و دو جاری رہی ہے لیکن کہیں نہ کہیں کچھ کمی ضرور رہ گئی ہے جو منزل ہم سے دوررہی ہے۔
پاکستان میں کرپشن کیخلاف سرگرم اداروں میں نیب، ایف آئی اے اور اینٹی کرپشن نمایاں ہیں۔ ایف آئی اے باضابطہ طور پر وزارتِ داخلہ کے زیرِ نگرانی جبکہ اینٹی کرپشن اسٹیبلشمنٹ صوبائی وزیراعلی کو رپورٹ کرتا ہے۔ وفاقی سطح پر نیب واحدادارہ ہے جو کسی کو باضابطہ طور پرجواب دہ نہیں اور ملک میں کرپشن کے خاتمہ کا مینڈیٹ لئے برسرِپیکار ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جس کیخلاف بھی نیب کے کیس بنے اس نے نیب پر پولیٹیکل انجینئرنگ کے الزامات لگا کر عوامی رائے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اتار چڑھاؤ کا یہ سلسلہ گذشتہ بائیس سالوں سے جاری رہا ہے۔ اس دوران چار مرتبہ نیب قوانین میں مختلف تبدیلیاں بھی متعارف کروائی گئیں لیکن تاریخ شاہد ہے کہ ہر مرتبہ نیب کو آئینی طور پر کمزور سے کمزور تر ہی کیا جاتا رہاہے۔ آئیے چند ترامیم کا سرسری جائزہ لیتے ہیں۔ نیب قانون میں کم و بیش اٹھائیس ترامیم کی گئی ہیں جن کا جائزہ لیا جائے تو ایسے ظاہر ہوتا ہے جیسے نیب کا وجود چھوڑ کر تمام اہم اختیارات کوذائل کر دیا گیا ہے۔آپ صرف چھ ترامیم کا موازنہ کرلیں تو صورتحال واضع ہو جاتی ہے کہ ان ترامیم کے پس ِپشت چند مخصوص عوامل کار فرماں ہیں۔مثال کے طور پر نیب ترامیم کو retrospective Effect کے تحت لاگو کیا گیا ہے جسکے مطابق تمام ترامیم یکم جنوری 1985 ء سے تاحال نیب کے تمام کیسز پر لاگوہونگی۔ یاد رہے نیب کا قیام 1999ء میں عمل میں لایا گیا تھا۔
دوسرا: کسی ملزم کیخلاف اثاثہ جات کے مقدمہ میں اسکے اہل خانہ کے نام موجود اثاثے ملزم کے اپنے اثاثہ جات کے طور پرقطعی تصور نہیں ہونگے۔ اندازہ لگائیے اس ترمیم کا فائدہ ادارہ کو ہوگا یا ڈائریکٹ ملزم کو۔اسطرح کوئی بھی فرد اپنے بیوی بچوں کے نام اربوں کی جائیدادیں بنا لے کوئی جواب دہی نہیں ہو سکے گی۔
تیسرا: نیب کیسز میں ملزم کی جائیداد کی قیمت کا تعین مارکیٹ ویلیو کے بجائے سالہا سال پرانے ڈی سی ریٹ کے مطابق تصور کیا جائیگا۔ اس ترمیم کے باعث اربوں روپے مالیت کی جائیدادیں یک دم کروڑوں اور لاکھوں کی ظاہر کی جاسکیں گی اور کوئی بھی ملزم کاغذی کارروائی میں ارب پتی سے لکھ پتی تصور کیا جائیگا۔
چوتھی اہم ترمیم کے مطابق کوئی بھی ملزم دوران ٹرائل اپنی جائیداد کو فروخت کرنے کا اہل قرار دیا گیا ہے۔ مطلب آپ زیرِ سوال جائیداد کو فروخت کریں اور مدعا ہی ختم کردیں۔ نہ رہے گا بانس، نہ بجے گی بانسری۔ راولپنڈی شہر کے معروف صدر بازار کے وسط میں زیرِ تعمیرایک چودہ منزلہ عالیشان کمرشل عمارت جو نیب کے ایک کیس میں کرائم پروسیڈ کے طور پر ضبط ہے اسکی فروخت کیلئے بھی راہ ہموار کر دی گئی ہے۔ پانچویں اہم ترمیم کیمطابق نیب آفیسران کی جانب سے کوئی بھی کیس ثابت نہ کر پانے کیصورت میں متعلقہ آفیسر کو پانچ سال قید اور مالی جرمانہ کی سزا دینے کا کہا گیا ہے ایسے حالات میں کون آفیسراتنی جرأت کریگا کہ کسی ملزم کیخلاف شواہد کی دستیابی کے باوجود کیس بنانے کی جسارت کریگا ۔چھٹی اور انتہائی اہم ترمیم جس کے مطابق ملزم کے اثاثہ جات کو ناجائز ثابت کرنے کی ذمہ داری نیب پر عائد کر دی گئی ہے۔ اسطرح ملزم کو یہ چھوٹ فراہم کی گئی ہے کہ اسکی آمدن چاہے جتنی بھی ہو اسکے نام موجود اثاثہ جات کے زرائع کو ناجائز ثابت کرنا اب نیب کی ذمہ داری ہوگا۔ ویسے تو سن رکھا تھا کہ کچھ مخصوص سرکاری اداروں کے چھوٹے اہلکار بھی کروڑ پتی ثابت ہوتے رہے ہیں یہ ترمیم ان کیلئے کتنا بڑا ریلیف ہے اس بات کا اندازہ مستقبل قریب میں ضرور جائیگا۔ ایسے میں بیوروکریسی میں موجود کالی بھیڑیں خوشی سے بغلیں بجاتی ہونگی کہ جو جواب انہیں دینا ہو سکتا تھا وہ اب نیب کی ذمہ داری ہے۔ یہ بات واضح ہے کہ جب تک تمام سٹیک ہولڈرز خلوص نیب کیساتھ کرپشن کے خاتمہ کیلئے میرٹ پر مبنی اقدامات اٹھانے کا تہیہ نہیں کرلیتے سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ پاکستان کرپشن فری ملک بن سکے۔ آج انسدادِ کرپشن کے اداروں کو اْسی سطح کی مالی، اخلاقی اور آئینی سپورٹ کی ضرورت ہے جیسی دہشت گردی کیخلاف جاری جنگ میں متعلقہ اداروں کو فراہم کی گئی تھی۔ بہترین لائحہ ِعمل یہ ہو گا کہ آپ قومی اداروں کو سپورٹ بھی کریں اور ساتھ ہی انکی کارکردگی پر کڑی نظر بھی ضرور رکھیں۔ ایک طرف ہم نیب کو ایجنڈا سیٹنگ کیلئے استعمال کرنے کی کوشش بھی کرتے آئے ہیں تو دوسری طرف نیب پر پولیٹکل وکٹامائیزنگ کے الزامات بھی لگاتے رہے ہیں۔ ان حقائق کو جاننے کے بعد کیا یہ تصور کیا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومتی ترامیم ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اورملکی و قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے نیب کو مزید مضبوط و فعال کرنے کی سعی کی گئی؟یہ سوال قارئین پر چھوڑتے ہیں۔