400 ارب سے زائد کی ٹییکسیشن ، ایک لاکھ ماہانہ آمدن پر چھوٹ واپس
اسلام آباد (عترت جعفری) فنانس بل میں نئی ترامیم کے ذریعے کم وبیش 400ارب روپے سے زائد کی نئی ٹیکسیشن کی گئی ہے، اس سلسلے میں کئی ٹیکسوں کا ریٹ بڑھایا گیا ہے یا نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں، صنعتوں پر اگرچہ اکنامک ٹیکس کی مد میں اقدامات کئے گئے ہیں تاہم سریا سیمنٹ ،چینی، بیوریجز،ایر لاینز پر سپرٹیکس لگنے اور دیگر افراد پر ایک سے چار فی صد کا سپر ٹیکس لگنے سے اس کا اثر سیمنٹ سگریٹ ،بیوریجز اور سریا کی ریٹ پر آئے گا اور ان کی قیمت بڑھے گی۔ بنیادی اشیاء پہلے ہی بہت مہنگی ہو چکی ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے لئے سپر ٹیکس کے نفاذ کے علاوہ 10 جون کو پیش ہونے والے بجٹ میں ردوبدل کے جو دیگر اہم اقدامات کئے گئے ہیں ان کے تحت ایک لاکھ روپے کی ماہانہ آمدن پر ٹیکس چھوٹ واپس لے لی گئی ہے ، بجٹ میں تنخواہ دار کے لئے 6لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدن کو ٹیکس سے چھوٹ دی گئی تھی، جبکہ چھ لاکھ سے بارہ لاکھ روپے تک سالانہ آمدن والے تنخواہ دار پر اڑھائی فی صد کا انکم ٹیکس نافذ کر دیا گیا ہے اور یہ ریونیو کا سب سے بڑا قدم ہے کیونکہ ملک میں اس سیلیب میں ملازمین کی سب سے بڑی تعداد ہے، جبکہ لاکھ روپے سے 36 لاکھ روپے سالانہ پانے والوں پر 12 فی صد کی شرح سے انکم ٹیکس لاگو کر دیا گیا ہے، اس سے اوپر کی سلیبز میں بھی ریٹ بڑھائے گئے ہیں، انکم ٹیکس کے ریٹ بڑھانے سے 233ارب روپے حاصل ہوں گے، بنولہ پر17فیصد جنرل سیلز ٹیکس ختم کر دیا گیا ہے۔ زرعی آلات اور ٹریکٹروں پر سبسڈی کی سکیم بحال رکھی جائے گی اور یہ سستے داموں فراہم کریں گے، پٹرولیم مصنوعات پر پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی شرح کو 30روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 50روپے تک لیجانے کیلئے وفاقی حکومت نے پیٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی سے متعلق قانون میں فنانس بل2022کے ذریعے ترمیم کر دی ہے۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) رواں مالی سال میں حکومت کی طرف سے مجموعی ٹیکسیشن800 ارب روپے کے قریب ہو گئی ہے ان میں کچھ اقدامات10جون کو اور باقی جمعہ24جون کو کئے گئے ،یہ بجلی گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کے علاوہ ہے، اس سے مہنگائی کا زور ہر حد سے تجاوز کرے گا، اس و قت مہنگائی کی جو شرح ہفتہ رفتہ کے بارے میں بتائی گئی ہے گذشتہ سال کے مقابلہ میں 28 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے، وزارت خزانہ میں ایک نیشنل پرائس کنٹرول کمیٹی کام کرتی ہے، جب سے مفتاح اسماعیل وزیر خزانہ بنے‘ شواہد ہیں کہ اس کمیٹی کا نئی حکومت بننے کا بعد کوئی اجلاس نہیں ہو سکا ہے ،اس طرح وفاقی سطح پر مہنگائی پر نظر رکھنے یا اس کے سد باب کا کوئی میکنزم کام نہیں کررہا، پی ٹی آئی کے دور میں ابتدا میں ایسی ہی صورت حال ہوا کرتی تھی جس پر اس وقت کے وزیراعظم کی توجہ مبذول کرائی گئی تو اس وقت کے وزیراعظم نے وزیر خزانہ پر برہمی ظاہر کی تھی اوراس کے بعد یہ اجلا س باقاعدگی سے ہوتے رہے، اب معامعلہ الٹ ہے۔