• news

13 بڑی صنعتوں پر 10 فیصد سپر ٹیکس ، کروڑوں کمانے والے اضافی محصول بھی دینگے 

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ) وفاقی حکومت نے ایک بار کی بنیاد پر 13 صنعتوںکے  30کروڑ روپے سے زیادہ منافع کمانے والے اداروں اور کمپنیوں پر دس فی صد کی شرح سے سپر  ٹیکس لگانے کا اعلا ن کیا ہے۔ جبکہ افراد جن کی آمدن 15کروڑ سے زائد ہو اس پر ایک فی صد، 20کروڑ سے زائد پر دو فی صد، 25کروڑ سے زائد پر تین فی صد اور 30کروڑ سے زائد آمدن رکھنے والے افراد پر 4فی صد سپر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ کھل، اور کاٹن کیک پر جی ایس ٹی ختم کر دیا گیا۔ جیولرز کی300فٹ کی دکان پر 40ہزار روپے فکسڈ ٹیکس نافذ کیا گیا ہے، اس سے چھوٹی دکان پر  بھی فکس ٹیکس لگے گا، جیولری کی اس سے بڑی دکانیں ٹیئر ون میں شمار ہوں گی تاہم ان پر جی ایس ٹی  کی شرح کو 17 فی صد سے  کم کرکے تین فی صد کر دیا گیا۔ سونے کی دکان  پر  سونا فروخت کرنے پر ود ہولڈنگ ٹیکس  4فی صد سے کم  کر کے ایک فی صد کر دیا گیا۔ کار ڈیلرز، ریسٹورنٹ، گھر بنا کر فروخت کرنے والے بلڈرز  پر بھی فکسڈ انکم ٹیکس لگے گا۔ پرائمری خسارہ کو1600ارب روپے  منفی سے نکال کر 153ارب روپے مثبت  کیا جائے گا۔  آئل مار کیٹنگ کمپنیوں پر ’’کم سے کم ٹیکس‘‘ کو  کم کر کے0,5 فی صد کر دیا گیا، پاکستان کے ان ڈینٹرز کا 5فی صد کمشن کاٹا جارہا ہے اسے کم کر کے ایک فی صد کر دیا گیا ہے۔ اوورسیز پاکستانی جو ریذیڈنٹ نہ ہوں  ان کو ایکٹو ٹیکس پئیرز سمجھا جائے گا تاکہ وہ پراپرٹی  کی خرید میں متحرک ٹیکس دہندہ کی سہولت سے فائدہ اٹھا سکیں، ملازمت میں موجود سول اور فوجی ملازمین  کو ملنے والنے والے پلاٹس کی فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس کی چھوٹ کو دوبار بحال کر دیا گیا ہے، شہداء اور  جنگ  کے زخمیوں کے لئے بھی پلاٹوں کی آمدن  پر ٹیکس کو واپس لے لیا گیا، سرجیکلز انسٹرومنٹس اور  سکن ہائیڈز پر 5فی صد ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیا گیا، ایف بی آر کا ریونیو کا ہدف 7004ارب روپے سے بڑھا کر7470 ارب روپے کر دیا گیا، بجٹ خسارہ4547ارب روپے ہو گا، مجموعی خسارہ3797 ارب روپے رکھنے کا ہدف ہے، فاٹا اور پاٹا میں  افراد کو انکم ٹیکس کی چھوٹ دینے کا بل الگ سے لایا جائے گا ، جن سیکٹرز پر دس فیصد سپر ٹیکس لگا ہے ان میںچینی، سیمنٹ‘ سٹیل، ٹیکسٹائل، سیگریٹ، کھاد، بینکس، کیمیکل‘ آئل اینڈ گیس ، بیوریجز ،آٹو موبائل اسمبلرز، ائیر لانز اور ایل این جی ٹرمینلز شامل  ہیں۔ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں رد وبدل   اور اہم فیصلوں کا اعلان وزیر اعظم  شہباز شریف  نے اکنامک ٹیم کے اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو اور وزیر خزانہ مفتاح اساعیل نے قومی اسمبلی میں بجٹ پر عام بحث کو سمیٹے ہوئے کیا۔ معاشی ٹیم کے اجلاس کی صدارت کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا کہ  ہم نے اہم فیصلے کیے ہیں، ان فیصلوں پر میں عوام کو اعتماد میں لینا اور حالات سے متعلق آگاہ کرنا چاہتا ہوں۔  جو فیصلے کیے گئے ان کے دو مقاصد ہیں، پہلا مقصد یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کی پرخلوص کوشش کی جائے اور مہنگائی کے بوجھ کے نتیجے میں کچھ آسودگی اور ریلیف عوام کو مہیا کیا جائے، دوسرا مقصد یہ ہے کہ یہ معیشت جو پچھلی حکومت کی نااہلی، نا تجربہ کاری اور کرپشن کی وجہ سے دیوالیہ ہونے جارہی تھی ان اقدامات کی مدد سے پاکستان اس دیوالیہ پن سے نکل جائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ میں ذاتی طور پر جانتا ہوں کہ پچھلی حکومت میں کتنی کرپشن ہوئی ہے، اسی لیے میں نے کرپشن کا ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کی معیشت کو مستحکم کرنا اور عوام کی محنت کے نتیجے میں خوشحالی کا انقلاب لانا چاہتے ہیں، یہ لفاظی نہیں ہے اور ایسا ہو کر رہے گا۔ بجٹ اعلانات اور آئی ایم ایف سے مذاکرات میں پیش کی جانے والی کچھ شرائط مانی جاچکی ہیں، اگر ان کی طرف سے مزید شرائط نہ آئیں تو امید ہے کہ ہمارا معاہدہ طے پا جائے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ مخلوط حکومت نے پاکستان کو ان سنگین حالات سے نکالنے کے لیے جرات مندانہ فیصلے کیے ہیں، اس سے یقیناً وقتی طور پر مشکلات آئیں گی لیکن پاکستان مشکلات سے نکل جائے گا۔ یہ وقت سیاست کو نہیں ریاست کو بچانے کا ہے۔ ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم جرات کے ساتھ آگے بڑھیں گے دن رات محنت کریں گے اور ہچکولے کھاتی معیشت کی کشتی کو پار لگائیں گے۔ شہباز شریف نے کہا کہ ہمارا یہ پہلا بجٹ ہے جس کا مقصد پاکستان کے عوام کو غیر معمولی سختیوں سے بچانا ہے، ایسے طبقات جو یہ بوجھ برداشت کر سکتے ہیں ان سے مدد لینا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر چیلنج اور مشکل حالات میں غریبوں نے قربانی دی ہے، آج صاحبِ حیثیت افراد کو اپنا حق ادا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں ہم نے اقتصادی ویژن دیا ہے اور اس میں تمام پارٹیز کا تعاون شامل حال رہا ہے، شہباز شریف نے کہا کہ آج فیصلہ کیا ہے کہ بڑی صنعتوں پر ہم غربت کم کرنے کے لیے ٹیکس لگا رہے ہیں، ان میں سیمنٹ، اسٹیل، شوگر صنعت، تیل اور گیس، زراعت، بینکاری کی صنعت، آٹو موبائل کی صنعت، سیگریٹ مینو فیکچرنگ، ائر لائنز، ایل این جی ٹرمینلز کی صنعت شامل ہے، ان پر 10 فیصد ٹیکس لگایا گیا ہے۔ سیگریٹ کی صنعت کا  40 فیصد ٹیکس نہیں دیتا۔ ٹیکس کی کلیکشن کے لیے تمام ڈیجیٹل ٹولز کو بروئے کار لائیں گے اور ٹیکس کے پیسے عوام پر استعمال کریں گے، اگر ہم ایسا نہیں کریں گے تو ہمیں قرض لینا پڑے گا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ آج ہمیں نفرتوں کی دیوار گرانی ہے اور ہم نے کانٹوں کو ختم کرنا ہے، یہ گرینڈ نیشنل ڈائیلاگ کے ذریعے ہی ممکن ہے، وزیراعظم نے کہا کہ وہ افراد جو سالانہ 15 کروڑ روپے کماتے ہیں، ان کی آمدنی پر ایک فیصد ٹیکس لگایا جارہا ہے، وہ افراد جن کی آمدنی 20 کروڑ روپے ہے وہ 2 فیصد ٹیکس ادا کریں گے۔افراد جو 25 کروڑ سے زائد کما رہے ہیں ان پر 3 فیصد سے زائد ٹیکس لگایا جارہا ہے جبکہ 30 کروڑ روپے سے زائد کمانے والوں پر 4 فیصد سے زائد ٹیکس لگایا جارہا ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان حکومت میں بدترین کرپشن ہوئی، معیشت دیوالیہ ہونے جارہی تھی، فیصلوں سے شارٹ ٹرم میں مشکلات آئیں گی لیکن ان مشکلات سے نکل آئیں گے۔ مہنگائی کا طوفان ہے، اس کوکم کرنے کے لئے اقدامات کریں گے، شہباز شریف نے کہا کہ، صاحب ثروت افراد غریبوں کی مدد کریں، ریاست کی ذمہ داری ہے کہ امراء سے ٹیکس لے کر غریبوں پر خرچ کریں، آئندہ مالی سال کا بجٹ معاشی صورتحال کو مستحکم کرنے کا بجٹ ہے، مختلف مدات میں سالانہ تقریباً دو ہزار ارب روپے کا ٹیکس غائب ہو جاتا ہے، ٹیکس وصولی میں اضافے اور ٹیکس چوری روکنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی استعمال کی جائے گی، پہلا بجٹ ہے جس میں اکنامک وژن دیا گیا ہے، اس پر وزیر خزانہ، وزیر تجارت، وزیر بجلی، وزیر پٹرولیم، معاشی ٹیم، ہمارے قائدین، نواز شریف، آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمن، ایم کیو ایم، باپ پارٹی اور اے این پی کا بھرپور تعاون حاصل رہا ہے، یہ معاشی وژن ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرے گا۔ وزیراعظم نے کہا معاشی خود مختاری کے لئے جان کی بازی لڑا دوں گا۔ ہمیں بحیثیت معاشرہ اپنی تقدیر بدلنا ہو گی، روکھی سوکھی مل کر کھانا ہو گی، مشکل کے بعد آسانی آئے گی اور پاکستان اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر لے گا۔دریں اثنا وزیر خزانہ مفتاح اسمٰعیل نے جمعہ کو بجٹ پر بحث سمیٹنے کے لیے بلائے گئے قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے  کہا  پی ٹی آئی حکومت پر ملک کو دیوالیہ کے دہانے پر لانے کا الزام لگایا اور کہا کہ ہم نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچایا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میں آج قوم کو یہ خوشخبری دینا چاہتا ہوں کہ ملک اب ڈیفالٹ کی راہ پر نہیں بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔ میرا نہیں خیال کہ پچھلے 10 سے 20 سالوں میں اس سے زیادہ کسان دوست بجٹ پیش کیا گیا ہے۔ ملک خوردنی تیل، گندم اور دیگر اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہو جائے گا، یہ فوائد طویل مدتی ہوں گے۔ بجٹ میں کسانوں کے لیے فنڈز کو سبسڈی نہیں بلکہ سرمایہ کاری سمجھا جانا چاہیے، وفاقی وزیر نے کہا حکومت نے پرانی جی ڈی پی کا 8.95 فیصد خسارہ بتایا ہے، یہ ملک کے اخراجات اور وسائل کے درمیان وسیع خلا کو ظاہر کرتا ہے، اب ہمیں دوسروں سے فنڈز لینا ہوں گے، یہ کیسی آزادی خود مختاری ہے کہ ہم تین سے چار سالوں میں 20ہزار ارب روپے کے قرضے لیتے ہیں؟۔ عمران خان کے دور حکومت میں اتنے بڑے قرضے لینے کا حوال۔ دیتے ہوئے  مفتاح اسمٰعیل نے کہا کہ ایسا کرتے ہوئے ہم آزادی کی طرف نہیں بلکہ غلامی کی طرف جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سبسڈی کو ختم کرنا ایک مشکل فیصلہ تھا  اتحادیوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان سب کا خیال تھا کہ اس سے سیاسی سرمائے پر اثر پڑے گا لیکن ان سب نے اتفاق کیا کہ پاکستان پہلی ترجیح ہے۔ جاری مالی سال میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ تقریباً 17 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گا۔  مفتاح اسمٰعیل نے اکہا  کہ کوئی بالواسطہ ٹیکس نہیں لگایا گیا اور نہ ہی کھپت پر کوئی ٹیکس لگایا گیا ہے۔ ہم نے امیروں پر ٹیکس لگایا ہے، زیادہ تر ریونیو اس کے ذریعے اکٹھا کیا جائے گا تاکہ ہمیں دوسروں سے پیسے مانگنے کی ضرورت نہ پڑے اور اپنے بجٹ خسارے کو کم کرنے کے قابل ہو سکیں۔وزیر خزانہ نے کہا کہ میری کمپنیاں بھی پہلے کے مقابلے میں 20کروڑ روپے زیادہ ٹیکس ادا کریں گی‘ بجٹ پر ارکان پارلیمنٹ نے مفید مشورے دیئے ہیں ، ارکان کی تجاویز کو شامل کرنے سے بجٹ میں کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔وزیرخزانہ نے کہا کہ رواں مالی سال بجٹ خسارے کے حوالے سے یاد رکھا جائے گا، اس سال 3990 ارب کا ہدف تھا، لیکن رواں مالی سال 5310 ارب روپے کا خسارہ ہوا، جب کہ مجموعی طور پر 4740 ارب روپے کا خسارہ ہوا ہے، جس کا مطلب ہے کہ ہمارے خرچے بہت زیادہ ہیں۔ گزشتہ حکومت نے پونے چار سال میں 71 سال کے برابر قرض لیا، یہ خود مختاری کی طرف جانے کا اقدام نہیں بلکہ غلامی کی طرف جانے کا اشارہ تھا، پیٹرول اور ڈیزل پر عمران خان نے ملک کو ڈیفالٹ کی نہج پر پہنچا دیا تھا، وفاقی وزیر نے کہا کہ غریبوں سے نہیں امیروں سے ٹیکس لیں گے، اور سب سے پہلے میں نے اپنے وزیر اعظم کے بیٹوں کی کمپنیوں پر زیادہ ٹیکس عائد کیا، میری اپنی کمپنی آئندہ مالی سال 20 کروڑ روپے زیادہ ٹیکس دے گی، میں شاہد خاقان عباسی اور دیگر لوگ بھی ذاتی طور پر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا چھوٹے تاجروں سے بجلی بل کے ذریعے فکس ٹیکس وصول کیا جائے گا، دکانوں پر سونا فروخت کرنے والوں کے لیے ٹیکس 4 سے کم کرکے 1 فیصد کردیا ہے۔ یہ سپر ٹیکس ایک سال کے لئے ہوگا۔ مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ اس سال حکومت نے 1600 ارب روپے توانائی کے شعبے میں نقصان اٹھایا ہے، اس میں سے 1100 ارب روپے براہ راست سبسڈٰ دی گئی ہے، جب کہ 500 ارب روپے سرکولر ڈیٹ میں چلا گیا، اب اس کا بھی مداوا کرنا ناگزیر ہے۔انہوں نے کہا کہ عمران خان 20سال سے ڈیڑھ سے  دو لاکھ روپے ٹیکس دے رہے تھے ،گذشتہ سال98لاکھ روپیہ دیا شاید یہ توشہ خانہ کی گھڑیاں بیچ کر کیا ،یوٹیلٹی سٹورز پر پورا سال سستا آٹا ملے گا، انہوں نے پی ٹی وی اے پی پی، پارلمینٹ ہاؤس، سمیت بجٹ کی تیاری میں کام کرنے والوں کے لئے دو اضافی تنخواہوں کا بھی اعلا ن کیا۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض کی طرف سے گندم و کپاس اور نوجوانوں کی طرف توجہ دلائی گئی، ہم نے کھل بنولہ پر ٹیکس ہٹا دیا ہے، زرعی آلات ٹریکٹر وغیرہ پر سبسڈی دے کر کسانوں کی مدد کی۔انہوں نے کہا کہ 10 لاکھ لوگوں کو 2،2 ہزارروپے دینے کیلئے رجسٹر کر لیا، 80 لاکھ لوگوں کو 2،2 ہزار روپے دیئے ہیں، مفتاح اسماعیل نے کہا سونے کے کاروبار میں 30 ہزار دکانوں میں سے 22 ہزار رجسٹرڈ ہیں، ہر سونے کی 3 سو سکوائر فٹ دکانوں پر 40 ہزار فکسڈ ٹیکس لگا دیا ہے۔وزیر خزانہ نے بتایا کہ ہم آمدن پر ٹیکس لگارہے ہیں، ہمارے اقدامات سے مہنگائی نہیں بڑھے گی، 80 لاکھ لوگ بے نظیر سکیم میں رجسٹرڈ تھے، 40 لاکھ میسیج کر چکے ہیں۔ یوٹیلٹی سٹورز پر ایک آمدن کی حد مقرر کی جا رہی ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ تمام سیکٹرز پر 4 فیصد اور 13مخصوص سیکٹرز پر 10 فیصد سپر ٹیکس لگایا گیا ہے جس کے بعد ان سیکٹرز پر ٹیکس 29 فیصد سے 39 فیصد ہو جائے گا۔ وزیر خزانہ نے کہا 90 لاکھ دکانوں میں سے 25 لاکھ پر فکس ٹیکس لگائیں گے۔ دریں اثناء نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ سابقہ حکومت ہمیں ڈیفالٹ کی نہج پر چھوڑ گئی تھی۔ مفتاح اسماعیل نے مزید کہا کہ کہیں کہیں آئی ایم ایف نے ہماری بات مانی اور کہیں ہم نے مانی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ماہانہ ایک سے تین لاکھ روپے تنخواہ پر 12 فیصد ٹیکس ہو گا۔ مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ ہول سیل اور ری ٹیل دکانوں پر 3 ہزار سے 10 ہزار روپے تک فکسڈ ٹیکس لگایا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن