بھارتی گجرات میں مسلم کش فسادات اور مودی کی بریت
بھارت کی سپریم کورٹ نے گجرات مسلم کش فسادات کیس میں وزیراعظم نریندری مودی کو بری کرنے کا فیصلہ برقرار رکھا اور انہیں کلین چٹ دے دی۔ بھارتی میڈیا کے مطابق جمعہ کے روز بھارتی سپریم کورٹ نے2002 ء کے گجرات فسادات میں شہید کئے جانے والے کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی جانب سے دائر درخواست خارج کر دی اور وزیراعظم نریندر مودی سمیت59 لوگوں کو کلین چٹ دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف قانونی کارروائی کا کوئی ثبوت نہیں۔ بھارتی سپریم کورٹ اس سے پہلے بابری مسجد اور حال ہی میں کشمیری حریت رہنما یاسین ملک کے معاملے میں بھی اپنے فیصلے جاری کر چکی ہے۔ جنہیں پوری دنیا میں متعصبانہ اور متنازعہ فیصلوں سے تعبیر کیا جا چکا ہے۔ بھارتی عدلیہ کے متعصبانہ فیصلوںنے اس کی ساکھ کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اس سے انصاف کی توقع عبث ہے حالانکہ بھارتی گجرات کے مسلم کش فسادات میں اس وقت کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کے ملوث ہونے میں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش ہی نہیں جس کا اعتراف متعدد مواقع پر بھارتی سیاستدانوں اور میڈیا کے ذریعے بھی کیا جاتارہاا ہے لیکن بھارتی سپریم کورٹ اس حقیقت کو ماننے سے انکاری ہے اور اس نے انصاف کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے مرکزی ملزم نریندر مودی سمیت 59 دوسرے شرپسندوں کو بھی بری کر دیا۔ بھارتی سپریم کا یہ فیصلہ بھارتی عدلیہ‘ آئین اور قانون کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔ جس نے سیکولر بھارت کے چہرے سے نقاب نوچ ڈالا ہے۔ دوسری طرف بھارت کے غیرقانونی قبضے والے کشمیر میں محاصرے اور تلاشی کارروائیاں جاری ہیں۔ بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے اور بھارتی سینٹرل ریزرو پولیس فورس کے اہلکاروں نے بارہمولہ‘ اسلام آباد‘ بانڈی پور‘ پلوامہ‘ سوپور‘ سری نگر اور کٹھوعہ کے متعدد علاقوں میں گھروں پر چھاپوں کے دوران شہریوں کو ہراساں کیا۔ بھارتی حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی خلا ف ورزیوں کا سلسلہ ہر آنے والے دن کے ساتھ دراز ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اگرچہ اس ظلم کے خلا ف کشمیری مسلمان مزاحمت کرتے دکھائی دیتے ہیں لیکن ایک ظالم و جابر حکومت (تمام تر وسائل رکھنے والی) کا مقابلہ نہتے افراد تنہانہیں کر سکتے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ عالمی ادارے اور قیادتیں اپنی اخلاقی اور قانونی ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے بھارتی حکمرانوں کو لگام دیں اور ہندوستان میں جنونی انتہا پسندوں کے شر سے بے گناہ مسلمانوں کو محفوظ رکھنے کے لئے اپنا اثرورسوخ استعمال کریں۔ تاکہ خطے میں امن قائم ہو سکے اور دنیا کسی متوقع نئی جنگ سے بچ سکے۔