• news

اتوار ،26 ذیقعد 1443ھ،26 جون 2022 ء

حکومت سپر ٹیکس کے بعد سرکاری نرخوں پر اشیاء کی فراہمی یقینی بنائے 
دنیا میں ترقی یافتہ ممالک سپرطاقت بننے کے لیے کوشاں رہتے ہیں تاکہ طاقت کا توازن برقرار رہے۔ ورنہ وہی حال ہوتا ہے جو روس کی شکست و ریخت کے بعد اس وقت دنیا کا ہو رہا ہے۔ امریکہ سپرطاقت بن کر سب کو دبکا رہا ہے۔ ہمارے ہاں بھی سپر ٹیکس نافذ ہونے کے بعد لوگوں کی جان نکالنے کے درپے ہے۔
 عوام ا لناس کو ڈر ہے کہ اب مہنگائی اور بڑھے گی کیونکہ سرمایہ دار  صنعتکار، ملز مالکان اورمڈل مین یہ ٹیکس بھی عوام کی جیبوں سے نکالیں گے۔ یہ خیال سوہان روح بن رہا ہے۔ پہلے ہی عوام کے پلے کچھ نہیں رہا اب باقی جو بچا ہے وہ مہنگائی کھا گئی ہے۔ غریب جائے تو جائے کہاں۔ حکومت نے سپر ٹیکس نافذ تو کر دیا ہے۔ اب عوام کو اس کے کاری وار سے بچانے کے لیے ملک بھر میں تمام اشیاء کی سرکاری نرخوں پر فراہمی یقینی بنانے کے لیے ہنگامی نہیں جنگی بنیادوں پر کارروائی کرے۔ جہاں بھی کوئی سر پھرا دکاندار، ڈیلر، بیوپاری، ملز مالکان یا خواہ وہ پرچون فروش ہی کیوں نہ ہو اگر سرکاری نرخ سے زیادہ وصول کرتا ہے تو اسے موقع پر بھاری جرمانہ اور سزا دی جائے تاکہ اس کی سات پشتیں دوبارہ ایساکرنے کا سوچ بھی نہ سکیں۔ بہت رعایتیں دے دیں‘ ہم نے 72 سالوں میں اب اگر آزمائش ہے تو صرف عوام نہیں امرأ اور اشرافیہ بھی اس میں شامل ہوں۔ غریب کب تک اور کیوں سب کا بوجھ اٹھاتے پھریں۔
٭٭٭٭
عمران خان کی 15مقدمات میں ضمانت‘ ضمنی الیکشن مہم پر لاہور آئیں گے
اب پی ٹی آئی والوں کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ وہ عدالتوں کے بارہ بجے رات کو کھلنے پر شور مچا ئیں۔ اب انہی عدالتوں نے ان کے قائد جو مقدمات کی وجہ سے پشاور اور بنی گالہ میں محصور ہوکر رہ گئے تھے کی ضمانت ایک نہیں پورے 15مقدمات میں چشم زدن میں کہہ لیں یا یک جنش قلم منظورکر لی ہے۔جس کے بعد اب ان کو گرفتارکرنے کی کوئی قانونی وجہ نہیں رہی تو خان صاحب اب آزادی سے ایک بار پھر عوام میں جلوہ نما ہوں گے ورنہ ایک ماہ سے تو ہر تقریب  ہر جلسہ بنی گالہ میں ہی ہو رہا تھا۔ اب ظاہر ہے وہاں آئے سینکڑوں افرادکو لاکھوں تو دکھایا اور بتایا نہیں جا سکتا ویسے بھی ہمارے رہنماؤں کو گانا آئے یا نہ آئے گانا چاہیے کی طرح تقریر آئے  نہ آئے کرنی چاہئے کا شوق  سوار رہتا ہے۔
 عمران  خان بھی اسی نرگسیت کا شکار ہیں تو اب لاہور میں انہیں یہ شوق پورا کرنے کا موقع ملے گا۔ کیونکہ ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں یوں
’’ضمنی الیکشن ہے تقریریں سناتے رہیے‘‘
 رسم دنیا بھی ہے موقع بھی ہے دستور بھی ہے
 لاہور والوں اور جہاں جہاں ضمنی الیکشن ہو رہے ہیں۔ وہاں کے لوگوں کو عمران خان کی پرانی یکساں موضوع یہ تقاریرمکرر سننا ہوں گی۔ ہاں البتہ ان تقریروں میں تڑ کا اب بجٹ اور اس کے حوالے سے مہنگائی کا ضرور ہوگا۔ اس سے شاید تقریروں کا ذائقہ زیادہ مزیدار ہو جائے گا۔
٭٭٭٭
کتوں کو مارنا مسئلے کا حل نہیں ڈائریکٹر ریبیز کنٹرول سندھ
اگر کتوں کو مارنا کتوں کے کاٹنے کے مسئلے کا حل نہیں تو پھر موصوف خود ہی کوئی اور راہ یا حل بتا دیں۔ کتوں کے کاٹنے کے واقعات پورے ملک میں گرمی کے موسم میں بڑھ جاتے ہیں۔ ان خوفناک آوارہ پاگل کتوں کا شکار سب سے زیادہ کم عمر بچے‘ عورتیں اور بوڑھے ہوتے ہیں جو ان سے بچاؤ  میں ناکام رہتے ہیں جوان مرد تو کسی نہ کسی طرح پتھر مار کر ڈنڈا مار کر انہیں خود سے دور کر سکتا ہے۔ مگر باقی لوگ ان کے حملوں کا شکار بن جاتے ہیں۔ کئی تو موقع پر ہی مر جاتے ہیں۔ باقی جو بچ جاتے ہیں وہ ہسپتالوں میں کتے کے کاٹنے کی دوا نہ ہونے کی وجہ سے نہایت اذیت  کی موت مرتے ہیں۔ 
ہاں اگر ملک بھر میں کتے کے کاٹنے کی دوا عام ملتی ہو توارزاں ہو اور پھر کسی بھی حکومتی اہلکارکا حق ہے کہ وہ کتوں کے حقوق کی بات کرے۔ انہیں مارنے کو کتے کے کاٹنے کا حل تسلیم نہیں کرے۔ مگر جب انسانی زندگی کا مسئلہ ہو تو یا رکھیں اولیت انسان کو دی جائے گی۔ کسی آوارہ پاگل کتے کو نہیں اس لئے ایسے کتوں کا ایک ہی علاج کارگر ہے کہ انہیں گولی ماری جائے ورنہ جنہیں آوارہ کتوں سے پیار ہے۔ ان کے وسیع عالی شان بنگلوں میں ان کتوں کو رکھا جائے تاکہ وہ ان کی ٹہل سیوا کرے۔ ورنہ ہر سال یونہی سینکڑوں افراد کتوں کے کاٹنے کی وجہ سے سسک  سسک کر مریں گے۔ فی الحال مسئلہ کتوںکا نہیں انسانوں کی زندگی بچانے کا ہے۔
٭٭٭٭
عثمان بزدار کا سکیورٹی کی  کھٹارہ گاڑیاں ملنے پر عدالت سے رجوع
اب اگر عثمان بزدار نے اپنے دور میں پولیس کی گاڑیوں کی حالت زار پر توجہ دی ہوتی تو شاید انہیں یہ شکایت کرنے کا موقع ہی نہ ملتا۔ یہ گاڑیاں راتوں رات تو وجود میں نہیں آئیں۔ یہ کھٹارہ یا سبک رفتار وہ ہماری مہربانی سے ہی بنتی ہیں۔ اب عثمان بزدار نے کونسا مریخ پر جانا ہوتا ہے کہ انہیں ’’سواری لبے نہ لبے سپیڈ اک سو نبے‘‘ والی گاڑی چاہئے۔ ویسے بھی تیز رفتاری خطرناک ہوتی ہے۔ وہ بھول رہے ہیں پہلے وہ وزیراعلیٰ تھے ان کے لئے سڑکیں خالی کروا کے ہوا کی رفتار سے ان کی گاڑی کو گزارا جاتا تھا۔ اب وہ سکواڈ کے ساتھ تو نکلتے ہیں مگر ان کے لئے ’’گلیاں سنجیاں‘‘ نہیں ہوتی۔ کیونکہ  اب وہ مرزا یار نہیں رہے شکر کریں موجودہ حکومت  نے نہایت فراخ دلی سے سابق وزرائے اعلیٰ کے لئے شاندار لامحدود مراعات کا اعلان کرکے اپنے لئے بھی فائدے کا سودا کیا ہے۔ کیونکہ یہ دنیا کا دستور ہے جو آج ہے وہ کل نہیں ہوگا تو جناب جمہوریت میں بھی تو یہی کچھ ہوتا ہے۔مگر بعدازاں ملنے والی لامحدود مراعات کے مزے لوٹے گا۔ یہ صرف ہمارے ہاں ہوتا ہے اپنے کو نوازنے کے لئے ورنہ حقیقی جمہوریت میں تو جو گیا سو گیا وہ کسی قسم کی قومی خزانے سے عیاشی کا حقدار نہیں ہوتا اور ہو بھی تو کیوں کیا عوام نے ان دولت مندوں کو کہا ہوتا ہے کہ الیکشن لڑ کر ہم پر حکومت کریں اور بعد میں بھی مزے لوٹیں۔ یہ خود انہی مزوں کے لئے الیکشن لڑتے ہیں۔ اس لئے عثمان بزدار کاش ڈی جی خان ، ملتان‘ لاہورفیصل آباد میں سڑکوں پر چلنے والی کھٹارہ بسیں ویگنیں بھی دیکھ لیں جو ان کی کھٹارہ سکیورٹی سے بھی لاکھ درجے بری حالت میں ہیں اور عوام ان پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن