سندھ بلدیاتی الیکشن : پیپلز پارٹی کو برتری ، لڑائی جھگڑے ، 2 جاں بحق ، دھاندلی ہوئی ، متحدہ ، پی ٹی آئی
کراچی/نواب شاہ/لاڑکانہ//( نامہ نگاران/ نیوز رپورٹر) صوبہ سندھ کے 14 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے دوران اتوارکو ووٹنگ کا عمل جاری رہا، پولنگ کا عمل صبح 8 سے شام 5 بجے تک بغیر کسی وقفے کے جاری رہا۔ تاہم مختلف علاقوں میں پولنگ کے دوران لڑائی جھگڑے، فائرنگ اور ناقص انتظامات کے باعث ووٹنگ میں تاخیر اور دیگر انتخابی بے ضابطگیاں سامنے آ ئیں جبکہ پرتشددواقعات میں پی ٹی آئی کے امیدوار کے بھائی سمیت 2افرادجاں بحق جبکہ درجنوں زخمی ہوگئے۔ اب تک کے غیر سرکاری اور غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کے امیدواروں کو واضح برتری حاصل ہے۔ پیپلز پارٹی نے لاڑکانہ، کشمور اور کندھ کوٹ میں کلین سویپ کرلیا، ڈہرکی کے 11 وارڈز پر جیالے کامیاب ہوگئے جبکہ گھوٹکی میں بھی پی پی پی نے چار وارڈز میں میدان مار لیا۔ مٹھی میں بھی پیپلز پارٹی نے 14 میں سے 10 وارڈز پر فتح سمیٹی۔ لاڑکانہ میں سہیل انور سیال کے چھوٹے بھائی شاہ رخ خان سیال چیئرمین منتخب ہوگئے جبکہ سکھر میں خورشید شاہ کے فرزند زیرک شاہ کامیاب قرار پائے۔ رتوڈیرو اور نوڈیرو کے تمام سترا وارڈز پر پیپلز پارٹی نے کلین سوئپ کرلیا۔ کشمور میں بھی پیپلزپارٹی کا پلڑا بھاری ہے جہاں 11 وارڈز پر جیالے امیدوار جیت چکے ہیں۔ سانگھڑ میونسپل کمیٹی کے 6 وارڈزمیں پیپلزپارٹی نے میدان مارلیا ۔ غیرسرکاری نتائج کیمطابق جنرل کونسلر کی نشست پر ڈینٹنگ پینٹنگ کا کام کرنے والے انور یوسفزئی بھی کامیاب ہوگئے۔تفصیلات کے مطابق سندھ بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے کے دوران لڑائی جھگڑے، فائرنگ، اور پولنگ میں رکاوٹیں عروج پررہیں،14 اضلاع میں سکھر، لاڑکانہ، شہید بینظیر آباد، میرپور خاص، جیکب آباد، قمبر شہداد کوٹ، شکار پور، خیر پور، نوشہرو فیروز، سانگھڑ، کشمور، کندھ کوٹ، گھوٹکی اور تھر پارکر شامل ہیںمیں پولنگ شام 5 بجے تک جاری رہی۔پولنگ کے دوران متعدد پولنگ اسٹیشنز پر سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم ہوا ہے جس کے سبب لوگ زخمی ہوگئے، کئی وارڈز میں ہنگامہ آرائی کے سبب ووٹنگ کا عمل روک دیا گیا۔ ابتدائی‘غیر سرکاری و غیر حتمی نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی کو برتری حاصل ہے۔ متعدد پولنگ سٹیشنز پر ہنگامہ آرائی اور فائرنگ کے باعث دو افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے۔ سندھ کے 14 اضلاع میں پہلے مرحلے کے بلدیاتی انتخابات میں 5331 نشستوں پر 21298 امیدواروں میں مقابلہ ہوا جبکہ میونسپل کمیٹیوںاور ٹائون کمیٹیوں میں پیپلزپارٹی کا پہلا نمبر 582 امیدوار کامیاب ہو گئے۔ 69نشستں جی ڈی اے,آزاد امیدواروں نے70نشستیں حاصل کیں جبکہ 22 نشستوں پر پی ٹی آئی ، جے یو آئی (ف) کے 12 امیدوار کامیاب ہوئے۔ 12 نشستیں دیگر جماعتوں نے حاصل کیں۔ متعدد پولنگ سٹیشنز پر سیاسی جماعتوں کے درمیان تصادم ہوا جس کے سبب لوگ زخمی ہوگئے، کئی وارڈز میں ہنگامہ آرائی کے سبب ووٹنگ کا عمل روک دیا گیا۔ متعدد پولنگ سٹیشنز پر دھاندلی، ہنگامہ آرائی، پولنگ بوتھ غائب کرنے اور پولنگ کے عملے کو حبس بے جا میں رکھنے کی اطلاعت موصول ہوئیں۔ ٹنڈوآدم کے وارڈ نمبر 13 میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہوا جس میں تحریک انصاف کے امیدوار ظفر خان گنڈا پور کا 45 سالہ بڑا بھائی قیصر خان گنڈا پور جاں بحق اور امیدوار خود زخمی ہوگیا۔ قتل کے بعد وارڈ نمبر 13 میں پولنگ کا عمل روک دیا گیا۔پی ٹی آئی کے زخمی امیدوار ظفر خان نے کہا ہے کہ پی پی کارکنان کے تشدد سے بھائی جاں بحق ہوا۔نواب شاہ کے تین پولنگ اسٹیشنز پر نامعلوم افراد کے حملے اور چند وارڈز پر کشیدگی کے باعث الیکشن کمیشن کی جانب سے پولنگ کا عمل ملتوی کر دیا گیا۔سکھر کے علاقے پنو عاقل میں دو پارٹیوں کے درمیان تصادم ہوا ہے جس پر الیکشن کمیشن نے کہا کہ ہنگامہ آرائی کرنے والے 13 افراد کو گرفتار کر لیا گیا، الیکشن روکنے کی کوشش کو بروقت ناکام بنادیا گیا۔ مٹھی میں کلوئی تحصیل کے مختلف پولنگ سٹیشنز پر تصادم، فائرنگ اور تشدد کے واقعات میں متعدد افراد زخمی ہوگئے۔ سابق وزیر اعلی سندھ ارباب غلام رحیم اپنے بیٹے ارباب عنایت پر حملے کی اطلاع پر پولیس اور رینجرز کے ہمراہ بچو بھوت پولنگ سٹیشن پہنچے۔ سکیورٹی اہلکاروں کی اضافی نفری تعینات کرکے پولنگ کا عمل دو گھنٹے بعد دوبارہ شروع کرایا گیا۔ کلوئی تحصیل کے پولنگ سٹیشن بچو بھوت پر ہی پیپلز پارٹی اور آزاد امیدوار کے حامیوں میں تصادم ہوا جس کے سبب آزاد امیدوار کے چار حامی زخمی ہوگئے جنہیں رورل ہیلتھ سینٹر کلوئی منتقل کردیا گیا۔ اسی طرح مٹھی کے پولنگ سٹیشن ٹوبھاریو میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کارکنوں کے درمیان جھگڑا ہوا جس میں دو افراد زخمی ہوئے۔ چونڈکو میں پپپلز پارٹی اور جی ڈی اے کے کارکنوں کے درمیان تصادم ہوا جس کے نتیجے میں پانچ افراد زخمی ہوئے۔ بعد ازاں پولنگ سٹیشن کو بند کردیا گیا۔ سانگھڑ یونین کونسل نمبر 22 کوٹ نواب میں دو گروپوں کے درمیان تصادم ہوا جس میں انتخابی کیمپ اکھاڑ دیا گیا۔ تصادم کے دوران متعدد افراد زخمی ہوئے۔ روہڑی میں یونین کونسل پھنوار پولنگ سٹیشن اللہ جڑیو جاگیرانی میں دو گروپوں کے درمیان تصادم ہوا۔ دونوں گروپوں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے میں دو افراد زخمی ہوگئے جس پر پولنگ روک دی گئی۔ فائرنگ کے باعث پولنگ سٹیشن میدان جنگ بن گیا، ووٹرز میں بھگدڑ مچ گئی، پولیس کی بھاری نفری نے پہنچ کر صورتحال کو قابو میں کیا۔ روہڑی میں ایک شخص جاں بحق ہونے کی اطلاعات ملیں۔ ترجمان الیکشن کمیشن کے مطابق سندھ کے بلدیاتی انتخابات میں چند وارڈز کے بیلٹ پیپرز پر امیدواروں کے نام غلط پرنٹ ہوئے جس وجہ سے بعض وارڈز میں پولنگ ملتوی کردی گئی ہے۔ ترجمان نے کہا کہ ان کیٹیگری آف سیٹس پر دوبارہ الیکشن کے لئے الیکشن کمیشن نیا شیڈول جاری کرے گا۔ ترجمان کے مطابق الیکشن کمیشن نے بیلٹ پیپرز پر غلط نام شائع ہونے کی انکوائری کا حکم دے دیا ہے۔ دوسری جانب نواب شاہ میں پولنگ سٹیشن نادر شاہ ڈسپنسری میں غلط انتخابی نشان پر امیدوار نے شدید احتجاج کیا۔ تحریک لبیک کے امیدوار کاکہنا تھاکہ بیلٹ پیپرپر کرین کے انتخابی نشان کے بجائے ملکہ کی تصویر چھاپی گئی ہے جب کہ نواب شاہ میں یونین کونسل تین وارڈ تین میں آزاد امیدوار نے غلط انتخابی نشان چھپنے پر احتجاج کیا۔ آزاد امیدوار نے بتایا کہ بیلٹ پیپر پر اس کا انتخابی نشان پنکھے کے بجائے تالا چھپا ہوا ہے۔ نوشہرو فیروز کے علاقے بھریاسٹی میں ووٹرز کے درمیان تصادم ہوا، پولنگ کچھ دیر کیلئے روکی گئی جبکہ پولیس کی اضافی نفری کو طلب کیا گیا۔ کندھ کوٹ میں جے یو آئی (ف) اور پیپلزپارٹی کے کارکنوں کے مابین لاٹھیاں چل گئیں، تصادم کا واقعہ میونسپل کمیٹی وارڈ نمبر 10 میں پیش آیا جہاں لاٹھیاں لگنے سے 30 کارکن زخمی ہو گئے جبکہ متعدد گاڑیوں کو نقصان پہنچا، کندھ کوٹ میں جے یو آئی ف اور پیپلز پارٹی کے کارکنوں کے درمیان تصادم‘ پولنگ عملے کے 10 اہلکاروں کو اغوا کر لیا گیا۔ ٹھل میں فائرنگ تو گھوٹکی میں خواتین نے ووٹ کاسٹ نہ کرنے دینے پر احتجاج کیا۔ کشمور میں گڈو کے وارڈ نمبر 10 کے پولنگ سٹیشن پر پیپلز پارٹی اور جماعت اسلامی کے کارکنوں میں تصادم ہوا جبکہ نواب شاہ میں پیپلز پارٹی کے امیدوار کا نشان مخالف امیدوار کو دے دیا گیا۔ پی پی کے امیدوار کو جے ڈی اے کا نشان دے دیا گیا۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی الیکشن کمشنر اعجاز چوہان نے کہا کہ جہاں جھگڑے ہوئے وہاں صورتحال پر قابو پالیا ہے، پر تشدد واقعات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔ انکوائری بھی ہوگی، امیدواروں اور تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ حالات کو پرامن رکھیں۔ صدر تحریک انصاف سندھ علی زیدی نے کہا ہے کہ بلدیاتی الیکشن مہم میں سرکاری مشینری کا بے دریغ استعمال کیا گیا، وفاقی وزیر اور وزیر اعلیٰ کا جلسہ قوانین کی کھلی خلاف ورزی تھا۔ کیا الیکشن کمیشن نے انہیں نوٹسز جاری کئے۔ جبکہ متحدہ قومی مومنٹ پاکستان (ایم کیو ایم) کے رہنما وسیم اختر نے الزام عائد کیا ہے کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوران پیپلز پارٹی کے کارکن ہنگاموں میں ملوث ہیں۔ کراچی میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے رکن وسیم اختر نے ہنگامی پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوران پیپلزپارٹی کے اراکین ملوث ہیں، فوج کو ایسے حالات کا نوٹس لینا چاہیے تاکہ امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنایا جاسکے۔وسیم اختر نے کہا کہ کہیں پولنگ کے دوران کچے کے ڈاکو عملے کو اغوا کرکے لے جارہے ہیں تو کہیں ہنگامے ہورہے ہیں، ادارے سیکورٹی کو مزید سخت کریں تاکہ انتخابات پر سوالیہ نشان نہ لگے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات کے دوران بتایا کہ سندھ حکومت کے ساتھ معاہدے پر پیش رفت نہیں کررہی، جب تک بلدیاتی ایکٹ پر کام نہیں ہوگا ایم کیو ایم حکومت میں اور کوئی عہدہ نہیں لے گی۔سندھ کے 14 اضلاع میں بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی نے میدان مار لیا۔ غیر حتمی و غیر سرکاری نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے میونسپل کمیٹی کی مجموعی 354 نشستوں میں سے 193 پر کامیابی حاصل کر لی۔ جی ڈی اے نے 17 نشستیں حاصل کیں۔ 17 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ پی ٹی آئی نے 13 اور جے یو آئی ف نے 5 نشستوں پر کامیابی سمیٹی۔ دیگر جماعتوں کے 2 امیدوار کامیاب ہوئے۔ ٹاؤن کمیٹی کی 694 نشستوں میں سے 520 کے نتائج کے مطابق پیپلز پارٹی نے 389 نشستیں جیت لیں۔ جی ڈی اے 52 نشستیں حاصل کر سکی۔ 53 آزاد امیدوار کامیاب ہوئے۔ پی ٹی آئی نے 9 ‘ جے یو آئی ف نے 7 اور دیگر جماعتوں نے 10 نشستیں حاصل کیں۔