وعدے وفا کے ارادے دغا کے!!!!!!!!
حکومتی اتحاد میں شامل اہم جماعت جمعیت علماء اسلام نے سندھ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔ جے یوآئی سندھ کے سیکرٹری جنرل راشد محمود سومرو نے سندھ کے چودہ اضلاع میں ہونے والے بلدیاتی انتخاب میں پیپلز پارٹی پر دھاندلی کا الزام لگاتے ہوئے نتائج مسترد کر دیئے ہیں۔ بلدیاتی انتخاب میں ہمارے کارکنوں پر گولیاں چلائی گئیں اور ہمارے ہی کارکنوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔ کارکنان پر تشدد اور دہشت گردی کے مقدمات کے بعد وفاق میں اتحاد پر غور کریں گے۔ راشد محمود سومرو نے پارٹی قیادت سے بھی زرداری بھگاؤ، سندھ بچاؤ تحریک شروع کرنے کا مطالبہ بھی کر دیا ہے۔
ایم کیو ایم کے رہنما وسیم اختر کہتے ہیں کہ حد ہوگئی ہے۔ معاہدے کی وجہ سے خاموش ہیں، اگر پیپلزپارٹی معاہدے سے منحرف ہوتی ہے تو ہم بھی بہادر آباد کو تالا لگا کر سڑکوں پرہونگے۔ طے ہوا تھا کہ پیپلزپارٹی ہمارا اور ہم ان کا مینڈیٹ قبول کریں گے، ہمیں سکھر اور میرپور خاص میں سیٹیں ملنی چاہئیں۔ اگر حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں پر ایم کیو ایم کے خدشات کو نہ سْنا گیا تو کراچی اور حیدرآباد میں بلدیاتی انتخاب نہیں ہونے دیں گے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی کہتے ہیں کہ جب پی ٹی آئی کی حکومت بدلنا تھی اس وقت ہمارے پاس چکر بہت لگائے جاتے تھے ہم نے ساتھ بھی دیا۔ حکومت کسی اور مقصد کے لیے تبدیل کی گئی تھی اب اس کا مقصد کچھ اور ہو گیا ہے، ہمیں کہتے ہیں کہ بغیر پورٹ فولیو کے وزارت لے لیں، میں کہتا ہوں بغیر کسی عہدے کے وزارت لے کر ہم نے کیا جھاڑو دینی ہے، ہماری شکایات دور کی جائیں۔ اسلم بھوتانی نے کہا کہ میں آج احتجاج کرنا چاہتا ہوں، ہم پی ٹی آئی کے ساتھ چار سال سے چل رہے تھے، بس کسی کی محبت میں ادھر آ کر بیٹھ گئے۔ میں نے آصف زرداری کو کہا کہ مجھے حلقے کے لیے فنڈز دیئے جائیں، زرداری نے احسن اقبال کو کہا مگر انہوں نے نہیں سنی، شہباز شریف کے پاس گیا وزیراعظم نے بھی احسن اقبال کو کہا کہ ان کو فنڈز دیئے، مگر جب کتاب آئی تو اس میں فنڈز بہت کم ہیں جو بالکل لالی پاپ ہے۔ پی ٹی آئی نے چار سال میں اربوں روپے کے فنڈز دیے، ہمیں پی ٹی آئی میں عزت نہیں مل رہی تھی مگر فنڈز بہت مل رہے تھے، زرداری صاحب اور وزیراعظم صاحب کا بڑا احترام ہے، افسوس سے کہتا ہوں کہ اس طرح حکومتیں نہیں چلتیں۔
چار مختلف لوگوں کے بیانات آپ کے سامنے رکھے ہیں یہ چاروں اتحادی ہیں ان کے بیانات ثابت کرتے ہیں کہ حکومت سے خوش نہیں ہیں۔ چند ہفتوں میں اتحادی عدم اتحاد، عدم اتفاق کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ بڑی جماعتوں کے لیے مسئلہ ہوتا ہے کہ انہیں حکومت بنانے کے لیے علاقائی یا چھوٹی جماعتوں کی ضرورت پیش آتی ہے۔ علاقائی اور چھوٹی جماعتوں کو بھی صرف حکومت میں رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یوں دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کو استعمال کرتے ہیں۔ یہ بیانات ثابت کرتے ہیں کہ اتحادی جماعتوں کے لیے ملکی مسائل نہیں بلکہ ذاتی مسائل، حلقوں کے مسائل یا سیاسی مسائل زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اتحادی جماعتیں اتحاد بناتے یا توڑتے وقت ملکی مفاد کو نظر انداز کرتی ہیں وہ بڑی سیاسی جماعتوں سے "وفا" کی امید رکھتے ہیں، خود بھی اتحاد کرتے ہوئے وفا کے وعدے کرتے ہیں لیکن جب کبھی وعدہ نبھانے کا وقت آتا ہے مجبوراً یا مصلحتاً کسی اور کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں۔ جنہیں چھوڑ کر جاتے ہیں اور جن کی محبت میں گرفتار ہوتے ہیں دونوں کو علم ہوتا ہے کہ یہ سب مفادات کا کھیل ہے اس لیے بڑی سیاسی جماعتیں بھی اتحادیوں سے ضرورت مندوں جیسا سلوک ہی کرتی ہیں۔ فریقین وعدے تو وفا کے کرتے ہیں لیکن ہر وقت دغا کرنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ چند ماہ پہلے تک اتحادی کہتے تھے نہ عزت ملتی ہے نہ۔ فنڈز، اب کہتے ہیں فنڈز ملتے تھے عزت نہیں ملتی تھی، مشاورت نہ ہونے کے مسائل پہلے بھی تھے اب بھی موجود ہیں۔ اتحادیوں کے لیے کچھ نیا نہیں ہے۔ جیسے جیسے حکومت مضبوط ہو گی اتحادیوں کی اہمیت کم ہوتی جائے گی۔ جیسا کہ اسحاق ڈار کی وطن واپسی کے بعد مفتاح اسماعیل کی اہمیت کم ہی نہیں ختم ہو جائے گی۔ سب مشکل فیصلے مفتاح اسماعیل کے سر ڈالنے کے بعد ڈار صاحب کی وطن واپسی ہو گی بالکل یہی حال اتحادی جماعتوں کا بھی ہونا ہے انہیں تیار رہنا چاہیے۔ ابھی یہ درجن بھر جماعتوں کا اتحاد ہے تو شکوے شکایتوں کی یہ حالت ہے اگر اتحادی کم ہوں یا پھر دو تہائی اکثریت ہو تو پھر اندازہ لگائیں کہ یہ جمہوریت پسند حکمران کیا کریں گے۔ جو ان مشکل حالات میں بھی اتحادیوں کو نہیں سن رہے جب انہیں ضرورت ہی نہ رہے تو وہ ان کا کیا حال کریں گے اس بارے کچھ کہنا مشکل نہیں ہے۔ بدقسمتی ہے کہ ووٹرز اپنے مسائل کے حوالے سے منتخب نمائندوں کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں اور اکثر اوقات منتخب نمائندوں کی حالت بھی قابل رحم ہوتی ہے۔ وزیراعظم بھی کہہ دیں تو بات نہیں بنتی۔ بہرحال یہ صورت حال حوصلہ افزا تو نہیں ہے۔
ماڑی پیٹرولیم کمپنی نے ملک میں گیس اور تیل کے ذخائر ملنے کی خوش خبری سنائی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں یہ ذخائر دریافت ہوئے ہیں اللہ کرے یہ خبر جیسے بتائی گئی ہے ویسے ہی سچی ہو۔ ملک اس وقت توانائی بحران کا سامنا ہے۔ اس بحران سے نکلنے کے لیے فیصلہ سازوں کو اس شعبے کے ماہر لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ایسا نہیں ہے کہ ملک میں وسائل اور باصلاحیت افراد کی کمی ہے۔ اگر کمی ہے تو وہ ایسے افراد کو صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع ہی نہیں ملتے۔ ماڑی پیٹرولیم کی اس خبر نے دل خوش کیا ہے اللہ کرے یہ خوشی برقرار رہے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف کہتے ہیں کہ عمران خان اینڈ کمپنی برطانیہ، امریکا، کینیڈا سے پاکستانی اداروں اور چیف آف اسٹاف پر حملے کروا رہی ہے۔
وزیردفاع کینیڈین رکن پارلیمنٹ کی جانب سے پاکستانی اداروں کے خلاف گفتگو پر برہم ہو گئے۔خواجہ آصف نے کہا کہ کینیڈا سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن ہمارے ادارے اور اْس کیس کے حوالے سے بات کی جائے گی تو یقینی رد عمل آئے گا۔ وزیر دفاع ٹھیک بات کر رہے ہیں ریاستی اداروں اور ان کے سربراہان کے حوالے سے موقف سرکاری نہیں بلکہ ریاست کی پالیسی ہونا چاہیے اسے سیاسی بنانے کا نقصان صرف اور صرف ملک کو ہوتا ہے۔ وزیر دفاع عمران خان کو نشانہ ضرور بنائیں لیکن اس سے پہلے ماضی قریب کے چند واقعات پر نظر دوڑائیں تو انہیں احساس ضرور ہو گا کہ اس معاملے میں سیاسی بیان بازی سے گریز ہی بہتر حکمت عملی ہے۔ بہرحال ایسی کسی بھی مہم کا توڑ ہونا چاہیے، کون یہ سب کچھ کر رہا ہے کون کروا رہا ہے اور کون مسلسل ایسے منفی کاموں کی سرپرستی کر رہا ہے۔ یہ کارروائی بلا تفریق ہونی چاہیے اگر بیرونی دنیا سے کوئی ایسی بات کرتا ہے تو سفارتی سطح پر احتجاج سے بڑھ کر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔