معاشی بحران، امیر حیران، غریب پریشان
یہ بات پاکستان کا ہر شخض جانتا ہے کہ جب مہنگائی آتی ہے تو مضبوط سے مضبوط حکومت بھی چلی جاتی ہے۔ عمران خان کی حکومت اس کی بہت بڑی مثال ہے۔ عمران خان نے قوم کو جو سبزباغ دکھائے تھے اور جھوٹے وعدوں کے انبار لگا ئے تھے۔ پچا س لاکھ گھر ایک کروڑ نوکریوں کے علاوہ ڈیم بنانے اور صحت کارڈ سے عوام کو جس طرح الو بنایا۔ اُس سے عوام میں شدید اشتعال پیدا ہوا۔ لوگوں میں نفرت اور بغاوت پیدا ہوئی۔ کورونا کے نام پر کروڑوں ڈالرز کھائے اور پاکستان کی تا ریخ کا سب سے بڑا قرضہ لیا۔ آئی ایم ایف کے پاس سٹیٹ بینک گروی رکھ دیا۔ امریکہ کو خوش کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور امریکہ کے ایجنٹس پاکستان کے اہم عہدوں پر لگا دئیے۔ کم و پیش دس ممالک سے فنڈز وصول کیے۔ عوام پر ناروا ٹیکسوں کا بوجھ لگا یا۔ عمران خان نے ہر طرح سے عوام کو زدوکوب کیا جس کا نتیجہ آج سا منے ہے۔ انتہائی کمزور اپوزیشن، فوج کا ساتھ اور کئی پارٹیوں سے اتحاد کے با وجود یہ طاقتور اور بے مہار حکومت منہ کے بل آ گری۔ اب آج یہی عمران خان اپنا وقت گزا رنے اور سیاسی طور پر زندہ رہنے کے لیے دن رات جلسے جلوس کر رہا ہے۔ کبھی ورکرز کنونشن سے خطاب کبھی پریس کانفرنس اور کبھی وڈیو پیغامات کے ذریعے خود کو سیاسی طور پر زندہ رکھنے کی ناکام کو شش کر رہا ہے۔ اب الیکشن ہو ئے تو عمران خان کو عوام بر ی طرح مسترد کر دے گی کیونکہ تبدیلی کے نام پر عمران خان نے صرف لوٹ مار کی ہے۔ حال ہی میں وفاقی وزراء نے بتا یا ہے کہ عمران خان نے پچاس ارب کی ریکوری سے باقاعدہ حصہ لیا ہے۔ جو حکمران دن میں پانچ مرتبہ ڈریس بدلتا ہو ہر وقت کنگھی پٹی میں لگا رہتا ہو۔ وہ قوم کی کیا حالت سدھارے گا۔ کچھ یہی حال اب مو جودہ حکومت کر رہی ہے حا لانکہ یہ ایک تجربہ کار ٹیم ہے۔ ملک کی گیا رہ بڑی اور اہم جماعتوں کے سربراہ اور منجھے ہو ئے سیاستدان حکومت کا حصہ ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ جب عوام نے عمران خان کے جانے پر سُکھ کا سا نس لیا تو توقع تھی کہ شہباز شریف اپنی مجبور، دُکھی مسلسل چار سال ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی ہو ئی قوم کو ریلیف دیں گے مگر یو ں لگتا ہے کہ حکومت کا ایجنڈہ امریکہ کے آگے گھٹنے ٹیکنا اور آئی ایم ایف کو خوش کرنااور اُنکے احکامات کی تعمیل کرنا ہے۔ صرف حکومت اِس بات کا جواب دیدے کہ انھیں ووٹ عوام دیتے ہیں یا آئی ایم ایف؟ مفتا ح اسماعیل جیسا آدمی ٹیکس لگا نے اور مہنگائی کرنے پر ہنستا ہے۔ عوام کے زخموں پر نمک چھڑکتا ہے اور کہتا ہے کہ ابھی مزید ٹیکس لگا ئیں گے۔ مہنگا ئی اور بڑھے گی۔ ایسی قہر آلود گرمی میں مفتاح اسماعیل تھری پیس سوٹ پہن کر فا ئیو سٹار ہوٹلوں میں رہ کر آئی ایم ایف سے مذاکرات کرتے ہیں۔
آئی ایم ایف کی ٹیم دبئی میں دوسرے درجے کے ہوٹل میں ٹھہرتی ہے۔ سادہ لباس اور عام گا ڑیوں میں سفر کرتی ہے لیکن جنھوں نے قرض لینا ہے جو بھوکے ننگے ہیں۔ وہ چلچلاتی دھوپ میں تھری پیس سوٹ، ریڈ نکٹائی پہن کر قرض مانگنے جاتے ہیں۔ کیا مفتا ح اسماعیل اپنے خرچ پر دبئی اور امریکہ جاتے ہیں؟ کیا پٹرول اپنا خرچ کرتے ہیں؟ کیا گاڑی ذاتی استعمال کرتے ہیں۔ اپنے اللّے تللّے تو ختم نہیں کرتے مگر عوام کو ٹیکسوں کے جال میں جکڑ کر اعصابی مریض بنا دیا ہے۔ مفتا ح اسماعیل بتا ئیں کہ کیا آپ نے بجٹ میںعوام کی آمدنی میں اتنا اضا فہ کیا ہے جتنے ٹیکس لگا ئے ہیں اور مہنگا ئی بڑھائی ہے۔ تنخواہ دار طبقہ کی تو پندہ فیصد آمدنی بڑھا دی مگر پینشنرز کی پانچ فیصد پینشن میں اضا فہ کر کے کیا آپ نے غیر انسانی رویے اور سفا کی کا ثبوت نہیں دیا۔ پینشنرز کی آمدن میں دو چار ہزار روپیہ اضا فہ کر کے آپ نے جتنا پٹرول بجلی آئل اور دیگر اشیاء میں بے پناہ اضافہ کیا ہے۔ ادویات کئی گنا مہنگی کی ہیں۔ کیا یہ سب چیزیں اپنی آمدن میں خرید سکتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپکی آمدن تو ماہانہ کروڑوں لاکھوں روپے ہے۔ لاکھوں روپے تنخواہ، لاکھوں روپے مراعات، لاکھوں روپے سیکورٹی پر، لاکھوں روپے رہائش پر، لاکھوں روپے ہوا ئی سفر اور پٹرول کے ۔۔پھر آپکے اپنے اس عہدے کی وجہ سے کئی قسم کی جائز و ناجائز مرا عات۔ آپکو دو چار سو روپے کسی چیز پر بڑھنے پر کیا فرق پڑتا ہے لیکن ایک غریب آدمی سا ڑھے چھ سو روپے کی ایک ننھی سے کوکنگ آئل کی تھیلی خرید کر لاتاہے یا ایک پینشنر اپنی تیس چا لیس ہزار کی پینشن سے پندرہ بیس ہزار کی دوائیں اور ڈا کٹروں کی فیسیں بھرتا ہے تو وہ جا نتا ہے کہ تین وقت کے بجائے صرف ایک وقت کی روٹی کھا سکے گا۔ موجودہ حکومت نے جتنے زیادہ ٹیکس لگا ئے ہیں۔ ان کے بعد قرضوں، بیرونی امدادوں اور چندوں کی مطلق ضرورت نہیںہے۔ چین نے ابھی کثیر رقم قرضوں کی مد میں دی ہے۔ سعودی عرب، امریکہ، آئی ایم ایف سے قرضے ملے ہیں۔ چار ممالک نے قرضوں میں ریلیف دیا ہے۔ ایران، روس، سعودی عرب اور کئی ممالک نے تیل اور گیس دے رہے ہیں۔ چین سے 2.3 ارب ڈالرقرض سٹیٹ بینک منتقل ہو چکا ہے۔ آئی ایم ایف سے بھی دو ماہ پہلے قسط مل چکی ہے۔ عوام سے کھربوں روپے ٹیکسوں کی مد میں وصول ہو رہے ہیں۔ کو ئی ترقیاتی کام نہیں ہو رہا ہے۔ کسی غریب کو چار پیسے نہں مل رہے۔ نواز شریف نے ٹھیک کہا ہے کہ عمران خان نے ملک تباہ کر دیا ہے لیکن موجودہ حکومت نے اتنی مہنگا ئی کر دی ہے کہ اب ہر گھر میں لو گ بُھوک پیاس سے بلک رہے ہیں۔ آ خر یہ اربوں ڈا لر اور کھربوں روپیہ کو ن ڈا ئن کھا رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے معا شی بحران بلکہ قوم کو خلجان میں مبتلا کر دیا ہے۔ آج ہر امیر حیران ہے اور سارے غریب پریشان ہیں۔