پٹرولیم مصنوعات پر 50روپے لٹر لیوی کی منظوری
اسلام آباد (نامہ نگار/ چوہدری شاہد اجمل) قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال 2022-23 کے 9502ارب روپے حجم کے وفاقی بجٹ کی منظوری دے دی جبکہ رواں مالی سال 22-2021 کیلئے قومی اسمبلی نے ضمنی بجٹ کی منظوری دے دی۔ رواں مالی سال کیلئے 8کھرب 28ارب روپے سے زائد کے 39 ضمنی مطالبات زر منظور کر لئے گئے۔ وزیرِ مملکت عائشہ غوث پاشا نے فنانس بل 23-2022 ایوان میں منظوری کے لیے پیش کیا۔ بدھ کو قومی اسمبلی کا اجلاس سپیکر راجہ پرویز اشرف کی صدارت میں ہوا۔ وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے تحریک پیش کی کہ یکم جولائی 2022 سے شروع ہونے والے سال کے لئے وفاقی حکومت کی مالی تجاویز کو روبہ عمل لانے اور بعض قوانین میں ترمیم کرنے کا مالی بل 2022 فی الفور زیر غور لایا جائے جس کی اپوزیشن کی طرف سے مخالفت کی گئی۔ اپوزیشن اراکین مولانا عبدالاکبر چترالی، ڈاکٹر فہمیدہ مرزا، وجیہہ قمر، ڈاکٹر رمیش کمار اور جویریہ ظفر آہیر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ وہ اس بل کو مسترد کرتے ہیں، اس میں بڑی تعداد میں ترامیم کی گئی ہیں جبکہ وزیر مملکت عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ مالی بل میں کی جانے والی ترامیم آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت پاکستان کے معاہدے کے مطابق ہیں۔اگر یہ ترامیم نہ کرتے تو اس سے حکومت پاکستان کی ساکھ متاثر ہوتی۔ بجٹ میں کم آمدنی والے طبقے کو ٹیکسوں میں ریلیف دیا گیا ہے۔ وزیراعظم کے ویژن کے مطابق خودمختار اور خودکفیل قوم بننے کے لئے اقدامات جاری رکھیں گے۔ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ حکومت فی الحال پٹرولیم لیوی عائد کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتی ۔ مالی بل میں ترمیم کے بعد حکومت ایک روپے سے لے کر پچاس روپے فی لیٹر تک پٹرولیم لیوی عائد کر سکتی ہے۔ بعد ازاں سپیکر نے یہ ترامیم ایوان میں پیش کیں۔ اپوزیشن کی جانب سے پیش کی گئی ترامیم کثرت رائے سے مسترد جبکہ وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل اور حکومتی اراکین کی جانب سے پیش کی گئی بعض ترامیم منظور کرلی گئیں، ان میں پٹرولیم مصنوعات پر 50روپے تک لیوی عائد کرنے، بڑی صنعتوں اور کاروباری اداروں پر سپر ٹیکس کے نفاذ کی ترمیم بھی شامل ہے، 13 صنعتوں کو سپر ٹیکس کے اطلاق سے 465 ارب روپے کا ریونیو حاصل کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ مالی بل 2022 میں بعض ترامیم کی گئی ہیں۔ آئی ایم ایف سے یہ معاہدہ کسی سیاسی جماعت نے نہیں بلکہ حکومت پاکستان نے کیا ہے، مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا 10 جون کو جو بجٹ پیش کیا گیا ہے اس میں پٹرولیم مصنوعات پر 30 فیصد ڈویلپمنٹ لیوی لگایا گیا جو بجٹ میں 50 روپے فی لیٹر مقرر کرنے کی تجویز ہے ہم اس کی مخالفت کرتے ہیں اور اس کو مسترد کرتے ہیں۔ اس سے عوام پر اضافی بوجھ ڈالا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بل سودی نظام کو تحفظ فراہم کر رہا ہے جو آئین کے خلاف ہے۔ تحریک انصاف کی رکن وجیہہ قمر نے کہا کہ شق 2 کسٹمز ایکٹ سب سیکشن 5 پیراگراف اے میں ترامیم تجویز کی ہیں۔ رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے کہا کہ گزشتہ سال بھی انہوں نے ایک ترمیم پیش کی تھی کہ ضم شدہ اضلاع میں کسٹمز دفاتر قائم کئے جائیں، میری درخواست ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور اسے کمیٹی میں ریفر کیا جائے۔ جی ڈی اے کی رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا کہ بجٹ اور فنانس بل کوئی معنی نہیں رکھتا، کئی منی بجٹ آنے کا امکان ہے، میں اس کی مخالفت کر رہی ہوں۔ جویریہ ظفر آہیر نے کہا کہ جو بجٹ پیش کیا گیا ہے وہ عوام دوست نہیں ہے، تحریک پر بحث سمیٹتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ جو نکات اٹھائے گئے ہیں اس کی وضاحت ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بجٹ ڈھانچہ جاتی بجٹ ہے۔ 80 فیصد سے زیادہ تبدیلیاں براہ راست ٹیکسوں میں لائی گئی ہیں۔ ہم صاحب ثروت افراد کو ٹیکس نیٹ میں لا رہے ہیں تاکہ غریبوں کو ریلیف فراہم کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ انکم ٹیکس، کسٹمز اور سیلز ٹیکس کے حوالے سے سینٹ کی سفارشات کو شامل کیا گیا ہے۔ آئی ایم ایف کی وجہ سے بھی بعض تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔ وفاقی وزیر برائے مواصلات مولانا اسعد محمود نے کہا حکومت سے جتنا ہوسکا موجودہ حالات میں ایک اچھا بجٹ پیش کر دیا۔ انہوں نے کہاکہ تمام سیاسی جماعتوں کو ایک متحدہ پاکستان کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ قومی اسمبلی اجلاس کے دوران سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کو اضافی مراعات دینے کا اختیار متعلقہ قائمہ کمیٹی خزانہ کو دینے کی شق بھی منظور کی گئی۔ ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی نے کہا ہے کہ ہمیں حکومتی بینچوں سے اپوزیشن بینچوں کی جانب جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ایم کیو ایم کے رکن صابر قائم خانی نے کہا کہ بجٹ میں ہمارے علاقوں کے منصوبوں کو کوئی ترجیح نہیں دی گئی۔ اگر ہماری بات نہیں ماننی تو ہم ایسی وزارتوں پر تھو بھی نہیں کرتے۔ ایم کیو ایم کے رکن صلاح الدین نے کہا کہ ایم کیو ایم نے اس حکومت کے لیے بھاری سیاسی قیمت ادا کی ہے۔ ہمیں حکومتی بینچوں سے دوسری جانب جانے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔ ایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی نے احتجاج کرتے ہوئے ایوان سے واک آٹ کرنے کی دھمکی دی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت میں ایک شخص ہے جو ہمارے منصوبوں کو بجٹ میں شامل نہیں ہونے دے رہا۔ ایم کیو ایم ارکان کو مرتضیٰ جاوید عباسی اور سابق سپیکر ایاز صادق نے روک لیا۔ قومی اسمبلی اجلاس کے دوران گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈی اے)کے رہنما رکن غوث بخش مہر نے ایوان سے واک آئوٹ کیا، ان کا کہنا تھا جس طرح کے بلدیاتی انتخابات کروائے گئے سب نے دیکھا سندھ بلدیاتی انتخابات پر ایوان سے واک آئوٹ کرتا ہوں۔ جی ڈی اے کی رہنما و سابق سپیکر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے کہا فنانس بل کی ترامیم کیساتھ یہ ایک نیا فنانس بل بن گیا جو ترامیم آئی ہیں وہ ایک نیا فنانس بل ہے۔ پی ٹی آئی کے پارلیمانی لیڈر احمد حسین ڈیہڑ نے کہا کہ آج جو پٹرولیم لیوی عائد کی گئی ہے اس کی مخالفت کرتا ہوں۔
اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) فنانس بل میں ترامیم کو منظور کراتے ہوئے متعدد نئے ٹیکس بھی لگائے گئے ہیں یا شرحوں میں ردوبدل کیا گیا ہے۔ سٹاک مارکیٹ میوچل فنڈ یا کولیکٹو انویسٹمنٹ سکیم ، آر ای آئی ٹی سکیم کیپٹل گین پر ود ہولڈنگ ٹیکس لگا دیا گیا۔ اس کے مطابق افراد اور ایسوسی ایشن آف پرسن کے لئے سٹاک فنڈ کا دس فی صد اور کمپنیوں پر سٹاک فنڈ پر دس فی صد اور دیگر فنڈ پر 25فی صد کے حساب سے ود ہولڈنگ ٹیکس منہا کیا جائے گا، پنشن فنڈ کے لئے ری بیٹ کی سہولت کو بحال کر دیا گیا ہے، بجٹ میں خالی پڑی جائیداد یا پلاٹ کو کرایہ پر تصور کرتے ہوئے ٹیکس لگایا گیا تھا اب اس میں کچھ تبدیلی کی گئی ہے جس کے تحت اب مالک کے ایک گھر کو استثنی دے دیا گیا ہے، آرمڈ فورسز، صوبائی اور وفاقی ملازمین کو اگر ان کے اصل ادارے کی جانب سے پلاٹ گھر کی الاٹ ہوئی ہو تو وہ اس ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے، سکیورٹیز کی فروخت کے لئے کیپٹل گین ٹیکس میں اہم ردوبدل کیا گیا ہے ایک سال کے اندر سیکیورٹی ( شئیر) کی فروخت پر کیپٹل گین ٹیکس 15فیصد کی شرح سے نافذ کر دیا گیا ہے ،جبکہ ایک سال سے دو سال کی مدت مین فروخت پر12.5 فیصد، دو سال سے تین سال میں فروخت پر دس فیصد، تین سال سے چار سال میں فروخت پر 7.5فی صد ،چار سے پانچ سال میں پانچ فی سد کیپٹل گین ٹیکس لگے گا ،پانچ سال سے چھ سال کی مدت میں فروخت پر ۲۔۵ فی صد ٹیکس لگے گا ،چھ سال میں فروخت پر ٹیکس کا ریٹ صفر ہو گا ،پاکستان مرکنٹائل ایکس چینج کے ممبران کی مستقبل کے سودون پر پانچ فی صد ٹیکس ہو گا ،کیپٹل گین ٹیکس کا یہ اطلاق یکم جولائی کے بعد خریدے شئیرز پر ہو گا، جولرز کے لئے سونے چاندی کی خریداری کی ادائیگی پر پر ٹیکس کی شرح کو ایک فیصد کر دیا گیا ہے، اے سی یا نان اے سی کی تخصیص کرتے ہوئے ٹیکس لگا گیا ہے، نان اے سی کیا ریٹ یہ ہو گا ،چا ر افراد کی گنجائش والی گاڑی 500 روپے، دس نشست افراد1500روپے ،20 افراد یا اس سے زیادہ گنجائش والی گاڑی 2500روپے سالانہ، اے سی والی گاڑی کے لئے بالترتیب ایک ہزار روپے ،دو ہزار روپے اور چار ہزار روپے ٹیکس لگے گا ، اس قانو ن میں لفظ نجی کو حذف کر دیا گیا ہے، نان ریذیڈینٹ کی تعریف کو بدل دیا گیا ہے اگر کوئی شخص کسی ملک مین قیام کرئے اور اس کا قیام اس ملک میں 182دنوں سے کم ہو تو وہ ریذیدینٹ پاکستانی تصور ہو گا ،چھوٹے ری ٹیلرز کے بجلی کے بل کے حساب سے ٹیکس کی تجویز مین بھی رد وبدل کر دیا گیا ہے ،ایف بی آر کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ری ٹیلر یا سروس پرووائیڈر کی فہرست جاری کر دے جن پر دو لاکھ روپے انکم ٹیکس ہو گا ، باقی سلیب اس طرح بنائے گئے ہیں ،ری ٹیلرزز جن کا بل30ہزار روپے سے کم ہے ان پر تین ہزار روپے ،پچاس ہزار روپے تک کے بل پر پانچ ہزار روپے ،ایک لاکھ روپے کے بل پر دس ہزار روپے انکم ٹیکس ہو گا، آئی ایم ایف کی شرط کے تحت تنخواہ دار طبقہ کے لئے ٹیکس کے بوجھ کو بڑھایا گیا ہے ، ماہانہ 50ہزار روپے تک تنخواہ لینے والوں پر کوئی ٹیکس عائد نہیں کیا جائے گا، ماہانہ 50ہزار روپے سے ایک لاکھ تک تنخواہ لینے والوں پر 2.5فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد ہو گا، ماہانہ ایک سے 2لاکھ تنخواہ والوں پر چھ لاکھ روپے سے ذائد رقم کا آڑھائی فی صد ٹیکس ہو گا ، اضافی رقم پر 12.5فیصد کی شرح سے ٹیکس عائد ہو گا،چھ لاکھ سے24لاکھ روپے کی آمدن پرٹیکس کی شرح 15ہزار روپے کے علاوہ 12لاکھ روپے سے زیادہ رقم کا 12.5 فی صد ٹیکس دینا ہو گا ،24لاکھ سے36لاکھ روپے سالانی آمدن پر ایک اکھ 65ہزار روہے کے علاوہ24لاکھ روپے سے زائد رقم کا 20فیصد ادا کرنا پڑے گا ،36 لاکھ سے60لاکھ روپے کی سالانہ آمدن پر چار لاکھ پانچ ہزار روپے کے علاوہ 36لاکھ روپے سے ذائد رقم کا 25 فی صد ٹیکس میں جائے گا ،60لاکھ سے ایک کروڑ20لاکھ روپے کی سالانہ آمدن پردس لاکھ پانچ ہزار روپے کی علاوہ60لاکھ سے ذائد رقم کا 32.5 فیصد داد کرنا ہوگا، ایک کروڑ 20لاکھ روپے سے زیادہ آمدن والون کو 29لکاھ55ہزار روپے کے ساتھ ایک کروڑ بیس لاکھ روپے سے زیادہ آمد ن کا 35 فیصد حکومت کو دینا ہو گا، منظور کی گئی ترمیم کے مطابق ایئر لائنز، آٹوموبائل، مشروبات، سیمنٹ، کیمیکل، سگریٹ، فرٹیلائزر، اسٹیل، ایل این جی ٹرمینل، آئل مارکیٹنگ کمپنیوں کے علاوہ آئل ریفائننگ، فارماسوٹیکل، شوگر اور ٹیکسٹائل بینکنگ سیکٹر سپر ٹیکس عائد کیا جائے گا۔، موبائل فونز کی درآمد پر 100 روپے سے 16 ہزار روپے تک لیوی ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔بجٹ میں 30 ڈالر کے موبائل فون پر 100 روپے لیوی عائد کیا گیا ہے، بجٹ میں 30 ڈالر سے 100 ڈالر مالیت کے موبائل فونز پر 2 سو روپے لیوی کی منظوری دی گئی ہے، دو سو ڈالر کے درآمدی موبائل فون پر 6 سو روپے لیوی نافذ کیا گیا ہے ڈالر مالیت کے موبائل فونز پر 18 سو روپے لیوی وصول کی جائے گی۔اس کے علاوہ 5 سو ڈالر کے موبائل فون پر 4 ہزار لیوی اور 7 سو ڈالر مالیت کے موبائل فون پر 8 ہزار روپے لیوی وصول کیا جائیگا جب کہ 701 ڈالر مالیت کے موبائل فون پر 16 ہزار لیوی عائد کی گئی ہے۔ملک میں تمام اداروں اور افراد سپر ٹیکس عائد کیا گیا ہے، جس کے مطابق سالانہ 15 کروڑ سے زائد آمدن پر 1 فیصد، 20 کروڑ سے زائد آمدن پر 2 فیصد، 25 کروڑ سے زائد آمدن پر 3 فیصد اور سالانہ 30 کروڑ روپے سے زائد آمدن پر 4 فیصد سپر ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ملک میں 300مربع فٹ کی دوکانوں پر 40ہزار روپے ماہانہ کا فکسڈ ٹیکس لگائیں گے سیلز ٹیکس رجسٹریشن کی جائے گی ،زیورات کی فروخت پر ایڈوانس انکم ٹیکس (ود ہولڈنگ) کی شرح4فیصد سے کم کر کے1فیصد کر دیا گیا ہے۔ پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی کی شرح کو30روپے فی لیٹر سے بڑھاکر50روپے رتک لیجانے کیلئے وفاقی حکومت نے پیٹرولیم ڈیویلپمنٹ لیوی سے متعلق قانون میں فنانس بل2022کے زریعے ترمیم منظور کر لی ہے۔