کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
پاکستان کی تاریخ کا غیر جانبداری سے جائزہ لیں تو یہ تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بعد تقریباً تمام حکمران کسی نہ کسی سازش کے تحت اقتدار میں آئے۔ سازش اندرونی تھی یا بیرونی، جو حادثاتی طور پریا خوش قسمتی سے اقتدار میں آ گئے تو بھی کسی سازش کا شکار ہو گئے یا کسی بیرونی طاقت کا آلہ کار بن گئے۔ اقتدار کے دوام کے لالچ اور خواہش میں یہ کٹھ پتلیاں دوسروں کے اشاروں پر ناچتی رہیں لیکن بالآخر انہیں ’’نوکری‘‘ پوری کرنے پر اقتدار سے ہاتھ دھونے پڑے۔ وہ یہ بات بھول جاتے تھے کہ ہمیشہ رہنے والا اقتدار صرف اللہ کا ہے۔ ہم بھی ان حکمرانوں جیسے ہی ہیں جو اپنے بزرگ، نوجوان اور کم عمر بچوں کی تدفین کر کے آتے ہیں اور عبرت پکڑنے اور اپنی آخرت کی تیاری کرنے کے بجائے یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے ہمیشہ زندہ رہنا ہے۔ہمارے خود غرض حکمرانوں نے ہمارے قومی اداروں کو تباہ کر دیا۔ پی آئی اے اور اسٹیل مل میں ہزاروں سیاسی تقرریاں کر کے ناقابل تلافی نقصان سے دوچار کر دیا۔ مجھے کالا باغ ڈیم کی سائٹ دیکھنے کا موقع ملا۔ اربوں روپے کی مشینری رہائشی کالونیاں اور انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا۔ کوئی پوچھنے والا نہیں کہ جو منصوبہ ہماری ترقی اور خوشحالی کیلئے لازم و ملزوم ہے اور جس پر قومی خزانے کے اربوں روپے خرچ کیے گئے ہیں اس کو بننے سے کس نے اور کیوں روکا۔ اربوں روپے کے ضیاع کا ذمہ دار کون ہے۔ ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے آمر جنہوں نے جمہوریت پر ڈاکہ ڈالا اور پاکستان کے بلا شرکت غیرے مالک و مختار بن بیٹھے تھے۔ ان کو کالا باغ ڈیم بنانے سے کون روک سکتا تھا۔ لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوے کرنے والوں نے بھی کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کیا۔
ہم بچپن سے نصابی کتابوں میں پڑھتے رہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے لیکن اب ہم گندم اور سبزیاں دوسرے ممالک سے مہنگے داموں خریدتے ہیں۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ملک کو پراپرٹی ڈیلروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ زرعی زمینیں تیزی سے رہائشی کالونیوں اور سوسائٹیوں میں تبدیل ہو رہی ہیں۔ عسکری اداروں کا نام استعمال کر کے پرائیویٹ کالونیوں کا ملک بھر میں جال بچھ گیا ہے۔ ڈی ایچ اے ہے تو رکنے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ کتنے گاؤں اور زرعی زمینوں کو ہڑپ کر چکی ہے۔ اخبارات اور چینلز دیکھیں تو لگتا ہے کہ اگر کوئی کاروبار ترقی کر رہا ہے تو وہ رئیل اسٹیٹ کا ہے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف لاہور میں پانچ سال کے عرصے میں دو لاکھ ٹن گندم پیدا کرنے والا زرعی رقبہ رہائشی کالونیوں کا حصہ بن گیا ہے۔ کیا یہ صورتحال حکومت اور متعلقہ اداروں کی نگاہوں سے اوجھل ہے؟ یا انہیں بھی کاروبار میں حصہ مل رہا ہے؟۔ یہ تو ہماری حکومتوں کی پرانی روایت چلی آرہی ہے کہ پہلے گندم وافر ہونے کا دعویٰ کر کے گندم بیرون ملک بیچ کر کمیشن لیتی ہیں اور پھر گندم کی کمی کا رونا رو کر پھر بھاری کمیشن لیکر باہر سے گندم منگواتی ہیں۔ یوں سمجھ لیں ہم پر سیاستدان نہیں مافیاز حکومت کرتے ہیں۔ گندم، تیل، گیس، ادویات، پراپرٹی مافیاز، دنیا بھر میں امیروں سے ٹیکس لیکر غریبوں پر خرچ کیا جاتا ہے لیکن ہمارے ہاں غریبوں اور متوسط طبقے سے ٹیکس چھین کر حکمرانوں، اشرافیہ اور امیروں کو مراعات دی جاتی ہیں۔
ہمارا مشرقی رہن سہن اور مشترکہ خاندانی نظام مثالی تھا۔ پہلے بیرونی امداد پر چلنے والی این جی اوز کے ذریعے اس پر ضرب لگانے کی کوشش کی گئی۔ پروپیگنڈا وار میں کچھ حد تک انہیں کامیابی ملی لیکن مدافعت اور مخالفت راہ میں حائل تھی۔پھر ایک آسان ذریعہ ڈھونڈا گیا۔ بیرونی وسائل کا رُخ میڈیا کی طرف موڑ دیا گیا۔ نیوز چینلز پر ایک دوسرے کی کردار کشی کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔ دن رات چلنے والے ٹی وی ڈراموں کے جو موضوعات منتخب کیے جاتے ہی رشتوں کے تقدس کی ایسی پامالی اور مادر پدر آزادی کی ترغیب دی جا رہی ہے کہ طلاق جو عورت کے دامن پر داغ ہوتا تھا مگر اب خلع کیلئے دعوے دائر کرنے والی خواتین کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ لڑکیاں گھروں سے بھاگ کر شادیاں کر رہی ہیں، دیور بھابھی اور سالی بہنوئی کو معاشقوں کی طرف مائل کیا جا رہا ہے۔ ماڈلز اور اداکاراؤں کو رمضان المبارک کی نشریات میں میزبان بنایا جاتا ہے۔کس کس طریقے سے ہمیں تباہ کیا جا رہا ہے۔
حکمرانوں، سیاستدانوں، اشرافیہ، بیورکریسی، مافیاز، فوج، عدلیہ سب کو چھوڑیں بطور عوام ہی ہم اپنا جائزہ لے لیں۔اپنی اپنی سطح پر ہم سب اپنے وطن پاکستان کو نقصان پہنچانے، قومی مفاد کو ذاتی مفاد پر قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔ ہم سب اس بندر کی طرح ہیں جس کے ہاتھ میں ماچس لگ گئی تھی اور اس نے جنگل کو آگ لگا دی تھی۔ ہم سب یہی کچھ کر رہے ہیں۔
آج 75 سال کا پاکستان ہم سب سے پوچھ رہا ہے:
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟
ہم میں سے ہے کسی کے پاس اس کا جواب؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ختم شد)