ٹیکس چوری نہ ہو تو بھیک مانگنے کی نوبت نہ آئے
سچ مانیں کہ ہم تو غیر مورثی سیاست دان عمران خان کے اس بیانیہ پر نہ چاہتے ہوئے بھی یقین کربیٹھے تھے کہ انکی حکومت کو امریکا نے سازش سے ہٹایا ہے اور موجودہ اتحادیوں کو یہ پیغام دیا ہے کہ عمران خان کو ہٹائو تو ہم پاکستان کی مدد کرینگے ورنہ پاکستان کو سبق سکھا دینگے ۔ہم نے یقین کیا اسکے باوجود کے تحریک انصاف کے رہنمائوں کے بیانات میں کبھی کوئی ربط نہیں رہا ، صبح کچھ شام کو کچھ تھا ، نیز یہ بیانیہ کہ امریکہ انکے اقتدار سے ہٹنے کے بعد چونکہ انہوں نے انقلابی جملہ ABSOULITY NOT کہا تھا، نہ جانے اس بیان پرمیں کیوںیقین کربیٹھا جبکہ پاکستان کے معاملات پر امریکہ تعلقات اسوقت سے واضح ہیں جب کہا گیا کہ بیڑہ پاکستان کی مدد کیلئے آگیا ہے مگر مشرقی پاکستان ہم سے علیحدہ ہوگیا اور بحری بیڑے کے تصاویر سے ہی گزارا کرتے رہے ، اور اب تحریک انصاف کے اقتدار سے ہٹنے کے بعد سہولیات تو کیا ؟ پاکستان کو معاشی طور پر مشکل ترین دور میں داخل کردیا ہے ۔ عالمی اداروں آئی ایم ایف اور دیگر پر اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ یہ تو سب امریکہ کے ’’بچونگڑے ‘‘ہیں ۔ شنید ہے کہ سابق وزیر اعظم میاںنواز شریف کے سمدی اسحاق ڈار پاکستان کو معاشی بھنور سے نکالنے کیلئے جس معیشت کی کمر ٹوٹ چکی ہے ،اپنی کمر کا علاج کراکے پاکستان معیشت کی درستگی کیلئے آرہے ہیں اس پر یہ محاورہ کہا جائے گا پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے امکانات کے ساتھ، پاکستانی حکام کو یقین ہے کہ کثیر جہتی اور دوطرفہ قرض دہندگان پاکستان کی مشکلات کا شکار معیشت کو اربوں ڈالر فراہم کرنے کیلئے مالیاتی فرق کو پورا کرینگے۔ بیرونی محاذ پر اس بڑے پیمانے پر مالیاتی فرق کو آئی ایم ایف کی مکمل حمایت کے بغیر پر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے حکومت اس پروگرام کے احیاء کیلئے بہت بے چین تھی۔ اگر حکومت انکے بتائے اہداف کو یقینی بنانے کیلئے مزید سخت اقدامات کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے، تو یہ پروگرام جاری رہے گا۔ ہمار ا ایک بڑا سنگین مسئلہ ہماری کسی بھی مسئلے پر کوئی قومی پالیسی نہیں بلکہ دو سال ، تین سال، چار سال کیلئے آنے والی غیر مستحکم حکومتوںکی اپنی سوچ کے مطابق پالیسیاں ہوتی ہیں، ہم پر کون سا ادارہ بھروسہ کریگا کہ آج یہ وعدہ کررہے ہیں اور کل نہ ہوئے تو نئے آنے والوںکی کیا ترجیحات ہونگی اور اگر کوئی حکومت چار سال رہ بھی گئی تو ان چار سالوںمیں وزراء خزانہ کئی تبدیلیاںہو جاتی ہیں اور ہر آنے والے کو اپنے آپ کو معیشت کا ’’دادا ‘‘ تصور کرتا ہا ۔ پچھلے پونے چار سالہ دور میں مستحکم معاشی حکمت عملی کے فقدان، وزرائے خزانہ کی بار بار تبدیلی، سی پیک سمیت ترقیاتی سرگرمیوں کی بندش، قرضوں کے بوجھ میں تاریخی اضافے نیز گندم اور چینی کے اسکینڈل اورایل این جی کے سستے سودوں کے مواقع ضائع کیے جانے سے مہنگائی کا جن بے قابو ہوگیا۔ پھر کووڈ کی وبا نے پوری دنیا کو کساد بازاری سے دوچار کیا جبکہ روس یوکرائن جنگ نے تیل اور گیس کی عالمی سطح پر شدید قلت پیدا کردی۔اس پس منظر میں یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ پاکستانی معیشت کو بحران سے نکالنے کیلئے بہت بڑے پیمانے پر مالی وسائل درکار ہیں۔پچھلی حکومت نے اپنے آخری دنوں میں آئی ایم ایف کی شرائط کی کھلی خلاف ورزی کرکے پاکستان کو دیوالیہ ہونے کے خطرے سے دوچار کردیا۔ اس سنگین صورت حال سے ملک کو نکالنے کیلئے موجودہ حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی مزید سخت شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں جن کا مقصد یہ ہے کہ پاکستان بحران سے نکلنے کیلئے ملکی وسائل میں اضافہ کرے۔ ہر حکومت کا یہ اعلان کہ کسی بھی ٹیکس یا تیل ، بجلی جیسے معاملات میں اضافہ کا اثر عام آدمی پر نہیںپڑے گا شائد وہ عام آدمی اپنے آپ کو سمجھتے ہیں جن پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔حال میں بڑے سرمایہ داورں، فیکٹریوںپر اضافی سالانہ ٹیکس لگانے پر عوامی حلقوں میں اس اقدام کا خیر مقدم کیے جانے کے باوجود خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ یہ بوجھ بالآخر عام صارف ہی کو منتقل کردیا جائے گادنیا میں کوئی اور خاص طور پر پاکستان میں کوئی ایسا محب وطن سرمایہ دار نہیںجو اپنے منافع میں کٹوتی کو خندہ پیشانی سے قبول کرلے۔ ایسے سرمایہ داروں کی اکثریت اسمبلیوں میں بیٹھی ہے جہان حکومتی رٹ، اور اعلانات کوئی مانع نہیں رکھتے ۔ لہٰذا حکومت کو اس خدشے کا مو ثر سدباب کرنا چاہیے۔ کاروباری طبقے کے منفی ردعمل سے بچنے کیلئے ضروری تھا کہ اس فیصلے سے پہلے اسکے معتمد نمائندوں کو پوری طرح اعتماد میں لیا جاتا لیکن بہرحال اب یہ کام بھلے طریقے سے انجام دیا جانا چاہیے۔یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ ہزاروں ایکڑ زمینوں کے مالکان پر سپر زرعی ٹیکس کیوں عائد نہیں کیا گیا جبکہ اس طرح قومی خزانے کو خطیر مالی وسائل حاصل ہوسکتے ہیں اور صنعتوں پر لگائے گئے سپر ٹیکس میں بھی نمایاں کمی کی جا سکتی ہے۔زرعی ٹیکس لگانے سے ہر حکومت نہ جانے کیوں خوفزدہ رہتی ہے ٹیکس چوری نہ ہو تو آئی ایم ایف یا کسی ملک کے پاس بھیک مانگنے جانے کی نوبت نہ آئے۔