• news
  • image

ریاست کی بقاء کے لیے ہوش کے ناخن لیں!!!!!


اداروں کے حوالے سے ہونے والی گفتگو نہایت افسوسناک ہے۔ اس مہم کے پیچھے جو لوگ نظر آ رہے ہیں عمومی طور پر یہ رائے پائی جاتی ہے کہ انہوں نے پاکستان تحریکِ انصاف کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ اس کا کھوج لگانا اور معاملے کی تہہ تک پہنچنا تفتیشی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ یہ گمراہ کن مہم چلانا کسی بھی طور ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔  ماضی میں جو کچھ ہوں بدقسمتی سے آج وہ سب کچھ پاکستان تحریکِ انصاف کر رہی ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ دنیا بھر اسٹیبلشمنٹ کے فیصلے اہم ہوتے ہیں  البتہ ایسا صرف پاکستان میں ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کی اہم شخصیات حکومت تبدیل ہونے کے بعد ریاستی اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ دنیا میں ایسا کہیں نہیں ہوتا۔ آج اندرونی طور پر جس طرح ریاستی اداروں پر حملے ہو رہے ہیں یہ لوگ دو ہزار اٹھارہ میں کہاں سوئے ہوئے تھے کیا اس وقت ان کی آنکھیں بند تھیں، کان بند تھے، سوچنے سمجھنے کی صلاحیت نہیں تھی اگر اس وقت خاموش تھے تو آج ٹرینڈز بنا رہے ہیں۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ریاستی اداروں پر حملوں کا فائدہ کون اٹھاتا ہے،  کیا  اداروں کے ساتھ محاذ آرائی ملک کے مفاد میں ہے، میرے خیال میں یقیناً نہیں ہے۔ اگر کچھ لوگ ایسا کر رہے ہیں تو قانون کو اپنا راستہ بنانا چاہیے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کو اپنے بیانیے پر نظر ثانی کرنی چاہیے یہ کوئی مناسب طرز سیاست نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے لیے بہتر ہے کہ انتخابی مہم پر توجہ دے اور انتخابی طریقہ کار میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کام کرے۔ پاکستان میں نفرت پھیلانے کے ایجنڈے سے دور رہے۔ اس معاملے میں بات کرنے سے پہلے نون لیگ یا دیگر سیاسی جماعتوں کو اپنا ماضی ضرور دیکھنا چاہیے۔ بہرحال تمام سیاسی جماعتوں کو اپنی توجہ عوامی مسائل حل کرنے، ریاستی اداروں کو مضبوط بنانے پر رکھنی چاہیے۔ اگر فوج اور عدلیہ کو متنازع بنانے کی کوشش کریں گے تو اس کا نقصان صرف پاکستان کو ہونا ہے۔ ذرا سوچیںوفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کہتے ہیں کہ آرمی چیف کی تعیناتی مقررہ وقت پر اور طریقہ کار کے مطابق ہو گی۔ خواجہ آصف نے بھی کہیں کوئی بات کی ہے۔ اصولی طور پر آرمی چیف کی تعیناتی، مدت ملازمت میں توسیع یا اس سے جڑے دیگر معاملات کو کسی صورت عوامی بحث نہیں بنانا چاہیے۔ سیاسی جماعتوں کو ایسے معاملات عوامی سطح پر زیر بحث لانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اداروں کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں اور وہ فیصلے ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں ہوتے ہیں۔ کچھ سیاست دان ایسے ہیں جنہیں اس کے علاوہ کوئی بات نہیں آتی۔ وہ ہر وقت اداروں پر بات کرتے ہیں، خود ساختہ ترجمان بننے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ عوام کا وقت ضائع کرتے ہیں، ٹیلی ویژن پر غیر حقیقی باتیں کرتے ہیں۔ اس بحث سے باہر نکلنے اور ایسے سیاست دانوں کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔ ریاستی اداروں کے پاس اور بہت کام ہیں۔ ملکی دفاع کو مضبوط بنانے اور ملک میں پائیدار امن قائم رکھنے، بیرونی دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے ہر وقت کام کرنا پڑتا ہے۔ دشمن ہمارے امن کو تباہ کرنے کے لیے سازشیں کرتا رہتا ہے، دشمن کی چالوں کا توڑ کرنے کے لیے سیاسی قیادت کو عسکری قیادت کے ساتھ مل کر آگے بڑھنا چاہیے۔ یہی ملک و قوم کے مفاد میں ہے۔ اختلاف رائے کو اتفاق رائے میں بدلا جا سکتا ہے لیکن نفرت پھیلانے والوں اور قوم کو گمراہ کرنے والوں کو ضرور سوچنا چاہیے کہ اگ لگتی ہے تو سب جلتے ہیں آگ یہ نکیں دیکھتی کہ کون کون جل رہا پے۔ آگ لگانے کے بجائے حقیقت کا سامنا کریں۔ ملک میں ںڑی سیاسی جماعتیں ایک سے زیادہ مرتبہ حکومت کر چکی ہیں کسی بھی سیاسی جماعت کو دوبارہ موقع مل سکتا ہے بشرطیکہ وہ اپنے راستے خود بند نہ کرے۔ 
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہتے ہیں کہ ہم نے ڈونلڈ لْو سے پاکستان تحریک انصاف کی معافی سمیتت تعلق کاریکارڈ حاصل کر لیا ہے۔ امریکی حکومت سے معافی کے شواہد  آ چکے ہیں۔ اب ڈونلڈ لْو سے منتیں ترلے کیے جا رہے ہیں۔ حکومت اس معاملے پر ضرور کام کرے اور اس حوالے سے حقائق عوام کے سامنے رکھے لیکن سارا وقت ایسے معاملات پر لگانے کے بجائے توجہ معیشت کی بہتری اور عوامی مسائل حل کرنے کی طرف ہونی چاہیے۔ اگر کسی نے کرپشن کی ہے، قومی سلامتی کے حوالے سے منفی رویہ اختیار کیا ہے، سازش کی ہے تو تفتیشی اداروں کے لیے تفصیلات اکٹھی کرنا کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ تمام ثبوت اور شواہد اکٹھے کر کے کام کریں، کرپشن کرنے والوں اور قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی کریں اور قانون کو اپنا راستہ خود بنانے دیں۔ میڈیا پر ہر وقت عدم استحکام کی صورتحال معیشت کی بہتری کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن