• news

تگنی کا ناچ یا آنگن ٹیڑھا

وہ ناچ جو اصل رفتار سے تین گناہ زیادہ تیز کیا جائے ، تگنی کا ناچ کہلاتا ہے ، لیکن یہ محارورے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جس کا مطلب بہت زیادہ تنگ کرنا پریشان کرنا ہوتا ہے ، آئی ایم ایف سے مالی معاہدے میں تاخیر پر اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ’’ آئی ایم ایف ہمیں تگنی کا ناچ نچا رہا ہے ‘‘ رانا ثناء اللہ نے بالکل درست فرمایا، عہدِ رفتہ اور دورِ حاضر میں پیسہ ہی نچاتا ہے ، خستہ حال ، غربت کے مارے افلاس میں مبتلا لوگوں کو امیر طبقہ اپنے مفاد کے غرض سے استعمال کر کے ہی نچاتا ہے، پیٹ کی بھوک ہو یا دولت کی ہوس دونوں ہی ناچنے پر مجبور کر دیتی ہیں لیکن یہاں تو نآنگن ہی ٹیڑھا ہے ۔ وزیرِ داخلہ رانا ثناء اللہ کی تگنی کے ناچ والی بات انتہائی فکر انگیز اور باعث شرم ہے کہ ایک اسلامی ملک پیسے کیلئے ناچ رہا ہے اور دنیا بھی دیکھ رہی ہے اور ملک کے بارہ کروڑ عوام بھی تماش بین بنے بیٹھے ہیں خاص کر وہ اشرافیہ جنہوں نے اس ملک کو لوٹ کر دوسرے ملکوں کے بینکوں میں اربوں ڈالرز سے زائد دولت جمع کر رکھی ہے ،ملک کا کل قرضہ اس جمع شدہ دولت کے کچھ حصے سے اتارا جاسکتا ہے، موجودہ آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کیلئے رادھا کو 9 من تیل کی ضرورت ہے جو کہ پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے مل نہیں سکتا نہ 9من تیل ہو گا نہ رادھا ناچے گی، پیسے مل بھی جائیں اور 9 من تیل بھی میسر آجائے تو بھی غریبوں کو نچوانے والوں کو ناچ کیلئے آنگن کے ٹیڑھا ہونے کا شکوہ رہے گا ، مقصد عوام بھوک سے سڑکوں پر ناچے یا آنگن میں انکی بلا سے ، اشرافیہ کو قرض کے پیسے کے حصول کی حد تک آئی ایم ایف سے تگنی کے ناچ کا واویلا مچاناہے ، اسکے بعد ان کا کام تو تماش بینی ہے پھر رادھا ناچے یا عوام۔ حکومت کو آئی ایم ایف تگنی کا ناچ نچوا رہی ہے اور حکمران عوام کو انگلیوں پر نچا رہے ہیں ، یہ بالکل کٹھ پُتلی کے ناچ کی طرح ہے جس کی ڈوریاں اشرافیہ کے ہاتھ میں ہیں ، خوشی اور غمی کے ہر آہنگ پر ناچ کی مستیاں سمیٹے ہمارا معاشرہ غربت ، مہنگائی، بے روزگاری اور ٹیکسوں کی زنجیر میں جکڑے ہوئے ناچ رہا ہے ، ناچنے والے کو بھی پتہ نہیں کہ وہ محوِ رقص کیوں ہے ۔سابق چیئرمین نیب جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کے مطابق ’’ ملک میں ہر جگہ مافیا ہے کہیں بڑا ہے کہیں چھوٹاملک میں لوٹی ہوئی دولت واپس لانا بہت مشکل ہے ‘‘ یہ لمحہء فکریہ ہے کہ مشکل کیوں ہے اور اسکے کیا عوامل ہیں ، بظاہر اس لوٹی ہوئی دولت میں ملوث عناصر کا شمار اشرافیہ میں ہوتا ہے ، لہذا وہ قانون کو اپنی گرفت میں تولے سکتے ہیں قانون انہیں اپنی گرفت میں نہیں لے سکتا ، نظریہ ء بد عنوانی بھی یہی ہے کہ جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کو کمزور کر دیا جائے ، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی جائیں ، معیارِ زندگی تباہ کر دیا جائے، دہشت گردی اور دیگر خطرات کو پروان چڑھا کر منظم جرائم کی راہ ہموار کر دی جائے ، منڈیوں کے معاملات میں بگاڑ پیدا کر کے مہنگائی کو بڑھاوا دیا جائے ۔ اکتوبر 2010 ء میں سوئٹزر لینڈ کی پارلیمنٹ نے اپنے مالیاتی نظام سے متعلق ایک منفرد اور قابلِ تحسین قراداد منظور کر کے غریب اور ترقی پذیر ممالک کو پیغام دیا کہ وہ اپنے سیاستدانوں ، تاجروں، سرکاری افسروں اور مافیاکی سوئٹزر لینڈ کے بینکوں میں ناجائز اور لوٹی ہوئی جمع شدہ 
 دولت کوضابطے کی کاروائی کر کے اپنے ملک واپس لے جا سکتے ہیں ، سوئٹزرلینڈ کی پالیمنٹ سے ا س قانون کے منظور ہوتے ہی دنیا کے کئی ممالک نے اپنے ملک کی لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کیلئے مثبت اقدام اٹھاتے ہوئے لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے میں کامیاب ہوئے، پاکستان واحد ملک ہے جو کہ ابھی تک اس معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ سوئٹزر لینڈ کی پالیمنٹ سے منظور ہونے والی قراداد سے فلپائن کے آمر حکمران مارکوس کی 600 ملین ڈالر کی رقم فلپائن نے واپس حاصل کی تھی ، اسی طرح برطانیہ اور نائجیریا نے لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا ایک معاہدہ کیا تھا ، جس کے تحت نائجیریا نے اپنے سابق گورنر جس نے ریاست کے تقریباً 11 کروڑ 70 لاکھ پائونڈ لوٹ کر برطانیہ منتقل کئے تھے برطانیہ میں اسے منی لانڈرنگ پر سزا بھی ہوئی تھی ، اس پر برطانیہ میں کیس دائر کیا ، حکومتِ برطانیہ نے 58 لاکھ ڈالر جلد واپس کرنے کی یقین دہانی کروائی ہے۔ مہنگائی عوام کے سروں پر ناچ رہی ہے ، غربت نے پاکستان کے سماجی نظام کی جڑیں ہلا کے رکھ دی ہیں ، اور ایک ارب ڈالرکیلئے آئی ایم ایف حکومت کو تگنی کا ناچ نچوا رہا ہے ، لیکن پھر بھی حکومت ملک سے لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کیلئے کوئی مثبت پیشرفت نہیں کر رہی۔ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کا سبب وہ قرضے تھے جنہیں ایسے منصوبوں پر خرچ کیا گیاجن کی لاگت زیادہ تھی اور آمدن کے امکانات بہت کم تھے ، لہذا حکمران اس بات کو مدِ نظر رکھیں اور تگنی کا ناچ ناچنے کے بجائے کرپشن سے لوٹی دولت کو بازیاب کرانے کیلئے عملی اور مثبت اقدامات کریں ۔ 

ای پیپر-دی نیشن