عیدالاضحی پر صفائی کا خیال رکھیں
عید کے ساتھ نوید اور امید وابستہ ہوتی ہے۔ عید قربان کی آمد آمد ہے، ہمارے ہاں ہر سال کئی ملین جانور قربان ہوتے ہیں۔ثواب کی نیت سے گوشت تقسیم کیا جاتا ہے اور جو قربانی نہیں کرسکتے انہیں اپنوں سے گوشت ملنے کی امید ہوتی ہے ۔ راقم نے بچپن سے پچپن تک کئی عیدین دیکھیں اور ان سے وابستہ یادیں آج بھی میرا اثاثہ ہیں۔ مجھے اپنے بچپن کا ایک واقعہ یاد آ گیا۔ ایک بار بچپن میں عیدالاضحی سے چند روز قبل میں نے اپنے والد محترم چودھری محمد دین مرحوم (جو معروف بزنس مین اور مسلم لیگ نیشنل گارڈ کے سالار تھے)کو اپنے کسی دوست سے فون پر بات کرتے ہوئے سنا۔ وہ عید قرباں پر قربانی کا جانور لینے کے حوالے سے بات چیت کر رہے تھے، میں بھی ان کی گفتگو سننے لگا اور دل ہی دل میں خوش ہورہا تھا کہ اس بار بھی ہم موٹا، تگڑا اور خوبصورت بیل اور بکرا لے کر آئیں گے، لیکن میری یہ خوشی زیادہ دیر تک نہ رہی جب میں نے اپنے والد صاحب کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ اس بار ہم قربانی نہیں کر رہے، ہمیں بھی قربانی کا گوشت بھجوا دینا۔ اتنی بات سننا تھی کہ میں افسردہ ہوگیا لیکن اتنے میں ہی مجھے خیال آیا کہ چند روز قبل ہمارے کاروباری شوروم اور گودام میں آتشزدگی کی وجہ سے بہت بھاری مالی نقصان ہوگیا تھا۔ جس میں سارا قیمتی سامان اور تجوری میں پڑی رقم تک جل کر راکھ بن گئی تھی۔ والد صاحب دن رات اور انتھک محنت کی بدولت اپنا کاروبار دوبارہ کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔یہ واقعہ آج سے تقریبا 46برس قبل کا ہے۔اچھا تو بات ہو رہی تھی کہ بدترین مالی نقصان کے نتیجہ میں اس سال ہم قربانی کرنے کی پوزیشن میں نہیں تھے، تو اس وقت مجھ پر جو عجیب کیفیت طاری ہوگئی تھی اسے کوئی نہیں سمجھ سکتا، جو لوگ بوجوہ قربانی نہیں کرپاتے، ان گھروں میں معصوم بچوں پر کیا گزرتی ہوگی مجھے اس کا بخوبی احساس اور ادراک ہے۔قربانی کا مقصد صرف قیمتی جانوروں کو ذبح اور گوشت تقسیم کرنا نہیں بلکہ قربانی تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت کی تجدید کرنا اور اس قربانی میں پنہاں فلسفہ سمجھنا ہے۔ درحقیقت اللہ تبارک و تعالیٰ کے احکامات کی اطاعت و اتباع ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ مجھے قربانی کا گوشت یا خون نہیں پہنچتا ماسوائے تمہارے تقوی کے۔ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیاکہ وہ اپنے عزیز ترین فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کریں۔ یہ باپ اور بیٹے کیلئے بہت بڑا امتحان تھا کہ باپ اپنے بیٹے کو ذبح کرے لیکن اللہ تعالیٰ کاحکم تھا دونوں باپ بیٹے نے سر تسلیم خم کیا اور باپ اللہ رب العزت کے حکم پر اپنے بیٹے کو قربان کرنے کیلئے تیار ہوگئے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی مقصود نہ تھی بلکہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا صادق جذبہ ایمان و اطاعت دکھانا تھا۔ جیسے ہی باپ نے آنکھیں بند کرکے بیٹے کی شہ رگ پر چھری رکھی تو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ بہشت سے آئے ھوئے ایک مینڈھے نے لے لی جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ذبح کیا۔ بلاشبہ یہ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے گھرانے کی سب سے بڑی قربانی تھی۔ عیدقرباں پر ہمیں غریب غربا، مسکینوں اور یتیموں کا خیال رکھنا اور انہیں انکی دہلیز پر گوشت پہنچانا چاہئے۔ ہر سال اپنی اپنی قربانی میں ان لوگوں کو حصہ دار بنائیں، جو قربانی نہیں کرسکتے، اپنے رشتہ داروں کو بھی گھروں میں مدعو اور ان کیلئے ضیافت کا اہتمام کریں۔ اپنے ہمسایوں کو بھی خوشیوں میں شریک کریں، دوست احباب کا خیال رکھیں۔ عیدالاضحی کے تینوں ایام میں خاص و عام گوشت کا استعمال بکثرت کرتے ہیں اور یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں لیکن ہمیں گوشت تناول کرتے وقت اعتدال کی راہ اپنانی چاہئے کہ بلاشبہ گوشت صحت کے اعتبار سے بہترین غذا اور اللہ تعالیٰ کی ایک بہت بڑی نعمت ہے۔ لیکن ایک مخصوص مقدار سے زائد استعمال صحت کیلئے نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے اسلئے اس کا استعمال اعتدال کے ساتھ کریں گے تو صحت کیلئے مفید ہوگا۔ گوشت پکاتے وقت کم سے کم تیل یا گھی استعمال کریں۔ ادرک، لہسن، ہلدی اور گرم مصالحہ جات ضرور شامل کریں۔ گوشت کے ساتھ سبزیوں کا سلاد ضرور استعمال کریں۔ بیشک اللہ تعالیٰ کی رضا و اطاعت کا راز اسلامی تعلیمات اور شعار کی کماحقہ پیروی میں مضمر ہے۔ وہ دین جو صفائی کو نصف ایمان قرار دیتا ہے۔ ہم لوگ عید کیلئے مہنگے سے مہنگا اور خوبصورت جانور خریدنے کو تو ترجیح دیتے ہیں بلکہ ایسے کہیں کہ مہنگے جانوروں کی خریداری باعث فخر سمجھی جاتی ہے تو یہ غلط نہ ہوگا، پھر قربانی تک جانوروں کی خوب آ بھگت کرتے ہیں، انہیں چارا ڈالتے ہیں،مربہ جات کھلاتے ہیں، دودھ، مکھن سے تواضع کرتے ہیں،اس کے ساتھ ساتھ ان کی نمائش گلی محلوں اور سوشل میڈیا پر کی جاتی ہے لیکن قربانی کے بعد جانوروں کی انتڑیاں، فضلہ اور باقیات سڑکوں، گلی محلوں اور کھلے مقامات پر پھینک دیتے ہیں، ایک طرف ہم لاکھوں روپے جانوروں کی خریداری پر خرچ کرتے ہیں تودوسری جانب چند سو روپے دے کر صفائی نہیں کرواتے جبکہ صفائی کو ہمارے ایمان کا نصف حصہ قرار دیا گیا ہے۔ اس سے لوگوں کو پریشانی بھی ہوتی ہے تو یہاں ہمیں سوچنا ہوگا کہ جانوروں کی آلائشیں سڑکوں اور کھلے مقامات پر پھینکنے کے عمل سے ہم دوسروں کیلئے اذیت کا باعث بنتے ہیں، لوگوں کو کن کن دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اس سے ہم سب بخوبی واقف ہیں بلکہ اس سے جو خطرناک بیماریاں پھیلتی ہیں، اس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے۔ عیدالاضحی کے دنوں میں حکومت تو اپنے طور پر صفائی ستھرائی کیلئے اقدامات کرتی ہے لیکن ہماری بھی کچھ ذمہ داری ہے کہ ہم جن بکروں، بیل کے تکہ بوٹی، کڑاہی، بریانی اور دیگر چٹ پٹے کھانے کھاتے ہیں، ان کی آلائشیں پھینکنے میں غفلت کا مظاہرہ نہ کریں۔ یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے کہ باقیات کو شاپر میں ڈال کر محفوظ طریقے سے ٹھکانے لگائیں تاکہ اس سے دوسروں کو تکلیف بھی نہ پہنچے اور بیماریاں پھیلنے کا بھی خدشہ نہ ہو اور ہمارا ماحول بھی خوشگوار رہے۔