عمران بتائیں اقتدار چاہیے یا این آر او : وزیر داخلہ
اسلام آباد (اپنے سٹاف رپورٹر سے) وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا ہے کہ عمران خان بتائیں انہیں کون سی دیوار کے ساتھ لگایا گیا ہے۔ کیا ان کی کرپشن کی تحقیقات کرنا دیوار سے لگانا ہے۔ کیا وہ جیل یا کسی حوالات میں بند ہیں یا بنی گالہ میں اپنے گھر ہیں۔ ابھی تو ان کی گرفتاری نہیں ہوئی ذرا حوصلہ کریں شور نہ مچائیں۔ صرف یہ بتادیں انہیں اقتدار چاہئے یا این آر او چاہئے۔ عمران خان کی اہلیہ اپنی آڈیو میں جرم کی ترغیب دے رہی ہیں۔ عمران خان نے کبھی نہیں کہا کہ یہ ان کی اہلیہ کی آڈیو نہیں ہے۔ عمران خان نے اپنے دور میں مودی کو کشمیر بیچا۔ ان کے کئی جرائم ہیں ابھی تو حساب شروع نہیں ہوا۔ توشہ خانہ سے گھڑیاں بیچ کر 100 فیصد رقم لی اور اس کا 20 فیصد جمع کرایا اور 80 فیصد اپنی جیب میں رکھ لیا۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ عمران خان آپ کو 500 ارب روپے کے اثاثے، 458 کنال اپنی اہلیہ محترمہ کے نام پہ اور 240 کنال بنی گالہ میں فرح گوگی کے نام پر آپ نے حاصل کئے۔ اس ٹرسٹ کے دو ہی ٹرسٹی ہیں جن میں ایک عمران خان آپ خود ہیں اور آپ کی اہلیہ محترمہ ہیں۔ اس کی انفارمیشن دینے یا اس بارے میں سوال سے آپ تنگ ہورہے ہیں۔ جبکہ آپ کو تو اس کا جواب دینا چاہئے۔ کیا آپ کی بہن بیٹی کو گرفتار کر لیا گیا ہے اس وجہ سے آپ تنگی محسوس کر رہے ہیں۔ اگر آپ سب کچھ کہنے پر تل گئے ہیں تو پھر اس بارے میں جواب دیں کہ 2014ء کے دھرنے آپ نے کس کے کہنے پر کئے تھے۔ ویسے تو موصوف اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد خود ہی جلسوں میں بتا رہے ہیں لیکن آپ بھی بتادیں۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار بدھ کو پی ٹی وی ہیڈکوارٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ عمران خان نے جو فرح گوگیاں اور گوگے چھوڑے ہوئے تھے ان کی صرف انکوائری ابھی شروع ہوئی ہے کہ ہر سال پنجاب کو بجٹ میں 700 سے لے کر 1100 ارب روپے کا ترقیاتی فنڈ دیا جاتا تھا اس میں سے صرف پانچ فیصد چیف منسٹر ہائوس تک جاتا تھا جہاں ایک ٹی کے صاحب تھے وہ جو ٹیکہ لگاتے تھے دیکھ رہے ہیں کہ اس میں سے بنی گالہ بھی جاتا تھا یا وہیں رک جاتا تھا۔ توشہ خانہ میں غبن کرایا۔ باقی سب تو آپ بتانے کو تیار ہیں لیکن یہ نہیں بتارہے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ 25 مئی کو ڈی چوک میں خواتین اور بچے نہیں آئے تھے بلکہ عمران خان کے بھیجے ہوئے شرپسند تھے جن کو پولیس، رینجرز اور ایف سی نے صرف آنسو گیس اور ربڑ کی گولیوں سے کنٹرول کیا۔ اگر خدانخواستہ فیملیز اور بچے وہاں لائے جاتے تو بھی صورتحال کنٹرول میں رکھی جاتی۔ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ عمران خان بتائیں اس وقت وہ کون سے سیل میں ہیں کہ دیوار سے لگے ہوئے ہیں۔ وہ اپنی ہی باتوں سے خود ہی ہراساں ہو رہے ہیں۔ ابھی تو ان کی گرفتاری کی سٹیج طے ہونا باقی ہے۔ ٹیپ میں کہا گیا کہ انکوائری کریں تو غداری ہے، سوال کرو تو کہتے ہیں گرفتاری کی جارہی ہے۔ عمران خان جھوٹ کے بعد اب سچ کا سامنا کریں۔ اپنے بارے میں خود ہی کہانیاں نہ گھڑیں۔ ایسیٹ ریکوری سیل میں شہزاد اکبر ان کا مہرہ تھے۔ عمران خان نے اپنی حکومت میں بدترین سیاسی انتقام لئے اور مخالفین پر جھوٹے مقدمات قائم کئے۔ ان کی حکمرانی فاشزم تھی۔ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ عمران خان نے کل کہا کہ ہمیں ہراساں کرکے دیوار سے لگائے جانے کا یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو سب کچھ بتا دوں گا۔ ان سے سوال ہے کہ کیا آپ جیل میں بند ہیں یا آپ کی ادویات بند کی گئی ہیں۔ آپ کو کیا تنگی ہو رہی ہے جس سے آپ پریشان ہیں۔ جبکہ آپ نے تو مخالفین کے خلاف سخت انتقامی کارروائیاں کی تھیں۔ آپ کی پریشانی ہے کہ آپ نے 240 کنال زمین فرح گوگی کے نام پر حاصل کی۔ اب آپ کو تمام سوالات کا جواب دینا چاہئے لیکن آپ ان سوالوں کا جواب دینے سے بچنے کیلئے دیوار سے لگائے جانے کا شور مچارہے ہیں۔ عمران خان اگر بتانا چاہتے ہیں تو بتائیں کہ 2014 کے دھرنے کس نے کروائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ آپ نے میرے خلاف بنی گالہ سے ہیروئن کا بیگ شہزاد اکبر کے ذریعے پہلے آئی جی اسلام آباد کو دیا گیا لیکن ان کے انکار پرمیری گاڑی میں ہیروئن رکھوائی گئی۔ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ 25 مئی کو عمران خان پوری قوم کے لئے جعلی بدمعاش بنے ہوئے تھے۔ اس روز رات کو دو سے اڑھائی ہزار شرپسند ڈی چوک پر قبضہ کرنے کے لئے بلائے گئے تھے جبکہ بچے اور خواتین نہیں آئے تھے۔ اگر وہ آتے تو ہمارے لئے بھی ایسا آپریشن ممکن نہ ہوتا۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ اگر کوئی صحافی صحافت کا لبادہ اوڑھ کر کسی پارٹی کے لیے کام کرئے تو پھر قانون حرکت میں آئے گا۔ ہم آزدی اظہار رائے کے قائل ہیں۔ اگر کوئی فوائد حاصل کرے اور پھر خود کو صحافی کہے تو ایسی صورتحال میں کیا کیا جائے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ ٹی ٹی پی سے بات چیت کا معاملہ ابھی ابتدائی مراحل ہے۔ ابھی مذاکرات کے بارے میں فیصلہ ہونا ہے کہ مذاکرات کیے جائیں یا نہیں اور اگر مذاکرات کرنے ہیں تو کس کے ساتھ کرنے ہیں اور کس حد تک کرنے ہیں۔ عسکری قیادت نے بہت اچھے انداز میں بریف کیا۔ ایک کمیٹی بنانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ پہلے کمیٹی تمام معاملات کو دیکھے گی۔ تمام فیصلے پارلیمنٹ کی سربراہی میں ہونگے۔ میٹنگ میں شریک سیاسی رہنماؤں اور پارلیمنٹرینز اس بات پر متفق تھے کہ مذاکرات ہونے چاہئیں۔ پوری دنیا میں جہاں جہاں بھی معاملات ہوئے ہیں بالآخر ٹیبل پر ہی اس کا حل نکلا ہے۔ رانا ثناء اللہ خان نے کہا کہ میں صحافتی تنظیموں سے کہتا ہوں کہ عمران ریاض کے معاملے میں وہ خود فیصلہ کر لیں کہ عمران ریاض کا موقف درست ہے یا نہیں پھر صحافتی تنظیمیں جو فیصلہ کریں وہ قابل قبول ہو گا۔