• news

وفاقی حکومت کے پاس دینے کیلئے کونسا سہارہ موجود ہے؟

عتر ت جعفری
بجٹ کے اثرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ،یہ تو خود وزیر آعظم ،وزیر خزانہ اور دوسرے وفاقی  وزراء کا برملا اعتراف ہے کہ بجٹ  میں سخت اقدامات کئے  گئے ،بجٹ آیا اور منظور بھی ہو گیا ،اپوزیشن کا ایوان میں نہ ہونا حکومت کے لئے تو ہمیشہ باعث مسرت ہوتا ہے ،جو چاہے کر لیں، روکنے ٹوکنے والے موجود نہ ہوں تو پھر آسانی سے800ارب روپے کے ٹیکس لگ جاتے ہیں ،اس  پر کوئی ردعمل بھی نہیں ہوتا ہے ،اب یہ ایک الگ بحث ہے کہ ایسی   نوبت کیوں آئی۔ملک ہر چند سال کے بعد اس نہج پرکیوں آ جاتا ہے کہ اس کے ڈیفالٹ  ہو جانے کی باتیں کھلم کھلا کی جانے لگتی ہیں ۔2013 ء  تھا اور مسلم لیگ کی حکومت تھی ،اس پارٹی  کے قائد نواز شریف  وزیر اعظم  تھے کسی نے ان سے سوال کیا کہ چہرے پر مسکراہٹ نہیں ہوتی تو کہنے لگے جب ملک مشکل سے نکلے گا تو اطمینان بھی آ جائے گا ۔دو تین سال گذرے'' پانامہ'' ہو گیا ا ور پھر جوہوا اس کی تلخیاں اب بھی موجود ہیں ۔ ایک بات ایسی ہے جو اس دور میں ہوئی وہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف کا پرو گرام مکمل ہوا اور حکومت کے وزیر خزانہ نے قرض پروگرام کی آخری قسط شکریہ کے ساتھ واپس کر دی اور کشکول توڑ دینے کا کہہ دیا گیا۔ 2018آگیا'اعلانی' خوشحالی رخصت ہو چکی تھی ،اور پی ٹی آئی کے وزراء اور قائد صبح شام ایسی باتیں کیا کرتے تھے جن کا مطلب یہی تھا کہ حالات اچھے نہیں ہیں پھر یہ دور بھی تمام ہو گیا،ہر سال  یہ نوید سنائی جاتی رہی کہ مشکل دورگذر گیا ہے۔ مگر اس سال اپریل کے وسط میں جب نئی حکومت بنی تو وزراء کے چہروں پر ہوائیاں دور سے اڑتی نظر آتی ہیں،800ارب روپے کے ٹیکس  لگانے کے بعد  اطمینان  اب کچھ  چال ڈھال میں بدلاؤ نظر آنے لگا ہے ۔ ہیوی ٹیکسیشن کیا معیشت اور ملک  کو بچانے کا ذریعہ ہے، ناکامی کا بوجھ عوام پر کیوں ڈالا جاتا ہے ؟اگر اڑھائی ارب ڈالر کی گیس ہوا میں اڑادی جاتی ہے تو اس کے ذمہ داروں کو پکڑیں۔اس کا بوجھ لوگ کیوں  اٹھائیں،یہ بد ترین صورت حال ہے ، اور ہم مالی سال2022-23ء میں سخت ترین  حالات سے گزریں گے ۔
عالمی طور پر معیشت کی سست روی کی باتیں کی جا رہی ہیں اس کی بڑی وجہ کرونا کی وبا کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات اور عالمی تنازعات ہیںجن میں یوکرین کی جنگ بھی شامل ہے ،اب ان حالات میں اگر دنیا کی  بڑی معیشتوں میں سست روی پیدا ہوتی ہے تو تیل کی طلب میں کمی ہو گی جس سے عالمی قیمت کم ہو سکتی ہے ،اس کا کتنا فائدہ ملک کے اند ر صارفین کو ملے گا یہ بھی ایک مشکل  سوال ہے کیونکہ آئی ایم ایف کے ساتھ مجوزہ معاہدہ کے جو اہداف مقرر کئے گئے ہیں ان کے تحت لگتا نہیں حکومت کے پاس دینے کیلئے کوئی  سہارہ موجود ہے ،تاہم ایک چیز جس کا ذکر  کرنا اور اس کو سراہنا چاہئے وہ یہ ہے کہ حکومت  پنجاب نے سو یونٹ بجلی استعما ل کر نے والوں کو بجلی مفت دینے کا علا  ن کر دیا ہے ،یہ بڑا قدم ہے جس سے غریب پرمہنگائی کے اثرات کو کم کرنے میں مدد ملے گی ء دوسری تمام صوبائی حکومتوں کو اس کی پیروی کرناچاہئے  جیسا کی سب جانتے ہیں کہ نئے این ایف سی ایوارڈکے بعد اب وفاق  مالی طور پر کمزور اورصوبے  خوشحال ہیں ان کو ''پرو پور'' اقدات کو بڑھانا چاہئے،اسلام آباد شہر  بے مثال ہے اور کنکریٹ کا  شہر ہے ،یہاں ذرا سی تپش سے پارہ  بڑھ جاتا ہے ،ان دنوں 'آڈیو ویڈیو لیکس کا  دور چل رہا ہے،مگر ایک بات برملا  کہہ دینی چاہئے وہ یہ ہے اس کام سے کوئی قومی خدمت نہیں ہو رہی ہیں ،اس سے تلخیاں برھیں گی اور بڑھتی ہی چلی جائیں  گی ،تاریخ کا سبق یہی ہے کہ سیاست کا مقابلہ اچھی سیاست  ہی سے ہو سکتا ہے ،پروپیگنڈا سے ذہن متاثر ضرور ہو جاتے ہیں مگر عقل اور دلیل کے سہارے سے اس اثر کو زائل کیا جا سکتا ہے ،آخر میں جس چیز کو دیکھ کر ووٹ پڑتا ہے وہ کام ہے اور خدمت ہے،اسی جانب توجہ دینی چاہئے ۔
 ملک کو پہلے ہی دہشت گردی اور معاشی بد حالی نے بہت نقصان پہنچایا ہے ،آج دیکھ لینا چاہئے کہ سری لنکا جن حالات سے گذر رہا ہے ،ہمیں معاشرے کے اندر سکون کی ضرورت ہے تاکہ آئندہ کم از کم ایک دہائی تک صرف کام، کا م اور کام ہو سکے،اسی تناظر میںپارلیمانی کمیٹی برائے نیشنل سکیورٹی کا اہم اجلاس وزیراعظم شہبازشریف کی صدارت میں منعقد ہوا جس میں قومی پارلیمانی وسیاسی قیادت، چئیرمین سینٹ، پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی، دفاع سے متعلق قومی اسمبلی وسینٹ کی مجالس قائمہ کے اراکین، وفاقی وزرا، صوبائی وزرا اعلی کے علاوہ گلگت بلتستان کے وزیراعلی ، وزیراعظم آزاد ریاست جموں وکشمیر اور عسکری قیادت نے شرکت کی۔ اجلاس کو قومی سلامتی کے امور اور کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ ہونے والی حالیہ بات چیت سے متعلق آگاہ کیاگیا۔ اجلاس نے قوم اور سکیورٹی فورسز کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا جن کی وجہ سے ملک کے تمام حصوں میں ریاستی عمل داری یقینی ہوئی۔ اجلاس نے اعادہ کیا کہ دستور پاکستان کے تحت طاقت کا استعمال صرف ریاست کا اختیار ہے۔ اجلاس نے سانحہ اے پی ایس سمیت دہشت گردی کا نشانہ بننے اور اِس کے خلاف کارروائی کے دوران شہید ہونے والوں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے ہوئے واضح کیا کہ ریاست پاکستان اپنے شہداکی قربانیوں اور متاثرہ خاندانوں کی امین ومحافظ تھی، ہے اور رہے گی۔ افغان حکومت کی معاونت اور سول و فوجی حکام کی قیادت میں حکومت پاکستان کی کمیٹی کالعدم ٹی ٹی پی کے ساتھ آئین پاکستان کے دائرہ کار کے اندر رہتے ہوئے بات چیت کررہی ہے تاکہ علاقائی اور داخلی امن کو استحکام مل سکے۔ اجلاس نے قرار دیا کہ حتمی نتائج پر عمل درآمددستور پاکستان کی حدود قیود کے اندر ضابطے کی کارروائی کی تکمیل اور حکومت پاکستان کی منظوری کے بعد ہوگا۔ پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی نے بات چیت کے اس عمل کو آگے بڑھانے کی باضابطہ منظوری دے دی جبکہ ایک پارلیمانی اوورسائیٹ کمیٹی تشکیل دینے کی بھی منظوری دی جوآئینی حدود میں اس عمل کی نگرانی کی ذمہ دار ہوگی۔اجلاس نے وسیع قومی مصالحتی ڈائیلاگ کی اہمیت کی تائیدکی۔
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر-دی نیشن