خوشخبری کا انتظار، پانی، پانی اور پنجاب کے ضمنی انتخابات!!!!!
لیجئے خوش خبری کی خبریں سننے کو مل رہی ہیں۔ پہلی خوش خبری تو یہ کہ عید بہت اچھی گذری اور تیسرے دن اچھی اچھی آوازیں اور بیانات سننے کو ملے۔ عید الاضحیٰ کے تین دنوں میں یہاں موسم گرم رہا لیکن بجلی فراہم کرنے والے ادارے نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلا تعطل بجلی کی فراہمی کو یقینی بنایا یوں عید کی خوشیوں کا مزہ دوبالا ہو گیا، اگر اعلانیہ و غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ ہوتی تو یقیناً عید کی خوشیاں تہہ و بالا ہوتیں، مہنگی عید میں بجلی کی بلا تعطل فراہمی بیک وقت نعمت اور زحمت کی خاصیت رکھتی ہے۔ نعمت سے تو ہم لطف اندوز ہو چکے زحمت کا اندازہ بجلی کا بل آنے کے بعد ہو گا۔ بہرحال دونوں صورتوں میں عید الاضحیٰ کو میں بھرپور انداز سے منانے کے لیے سہولیات فراہم کرنے والوں کا مشکور ہوں۔
اس کے علاوہ بڑی خوشخبری یہ ہے کہ وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے وزارت پیٹرولیم و خزانہ سے پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے سمری طلب کر لی ہے۔ وزیر اعظم نے یہ سمری عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی کے بعد کیا ہے۔ برطانوی خام تیل برینٹ ایک سو ڈالر فی بیرل سے نیچے آگیا۔ برینٹ کی قیمت 7.62 ڈالر یعنی 7.1 فیصد کمی کے بعد 99.48 ڈالر فی بیرل ہوگئی ہے جبکہ امریکی خام تیل ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ (ڈبلیو ٹی آئی) کی قیمت 7.69 ڈالر یعنی 7.3 فیصد کم ہوکر 96.42 ڈالر فی بیرل پر آ گئی ہے۔ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں ہونے والی کمی کے بعد وزیراعظم میاں شہباز شریف نے فوری طور اس کمی کا فائدہ عوام کو پہنچانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ درست ہے اگر عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے تو پاکستان میں بھی عام آدمی کو اس کا مکمل فائدہ ضرور ملنا چاہیے لیکن یاد رکھیں یہ دائمی سہولت نہیں ہو سکتی۔ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ معمول کی بات ہے آج قیمتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے پندرہ دن بعد قیمتوں میں اضافہ ہو گا تو پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ ہمیں اس مصیبت سے نکلنے کے لیے توانائی کے متبادل ذرائع پیدا کرنا ہوں گے۔ امپورٹ بل کم کرنے کے لیے قومی پالیسی تشکیل دینا ہو گی۔ نیشنل ایکشن پلان، این سی او سی کی طرح توانائی بحران پر قابو پانے اور قوم کو اس عذاب سے نکالنے کے لیے قومی پالیسی بنانے اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم ایٹمی صلاحیت حاصل کر سکتے ہیں تو ہم توانائی کے متبادل ذرائع کے حوالے سے بھی خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ وزارت توانائی، وزارت پیٹرولیم اور وزارتِ منصوبہ بندی سمیت دیگر متعلقہ اداروں پر مشتمل ٹاسک فورس کا قیام وقت کی اہم ضرورت ہے۔ بہرحال تیل کی قیمتوں میں کمی کے حوالے سے حکمراں جماعت کے عہدیداران کو سیاسی اجتماعات میں اعلان کے بجائے متعلقہ لوگوں پر چھوڑ دینا چاہیے۔ بلاوجہ ہر معاملے کو سیاسی بنانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
پہلے بلوچستان میں بارشوں کے پانی نے تباہی مچائی اس کے بعد کراچی کا پانی خبروں میں ہے۔ اب تو یہ معمول بن چکا ہے، کبھی پینے کا پانی نہیں ملتا اس پر احتجاج ہوتا ہے اور کبھی بارش کا پانی سنبھالا نہیں جاتا وہ سب کو بہا لے جاتا ہے اور ہم دیکھتے رہتے ہیں۔ ہر طرف پانی پانی ہے لیکن شاید سبق حاصل کرنے کے لیے یہ پانی کچھ کم ہے ہمیں کچھ زیادہ پانی کی ضرورت ہے۔ یہ پاکستان کے سب سے اہم شہر کا حال ہے جہاں سب کی نظریں ہوتی ہیں اندازہ لگائیں چھوٹے شہروں میں سہولیات کی کیا حالت ہو گی۔
ایم کیو ایم، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان تحریکِ انصاف، جماعت اسلامی اور حکمراں جماعت کو اگر کراچی کا کچھ احساس ہے تو بیانات سے باہر نکل کر عملی کام کرے۔ یہ صورت حال بالخصوص متحدہ قومی موومنٹ کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ایم کیو ایم خود کو کراچی کی نمائندہ جماعت کہتی ہے اگر وہ ان بنیادی مسائل حل کرنے کے قابل بھی نہیں ہے تو اس کا کیا فائدہ ہے۔ صرف بولنا، بیانات جاری کرنا، کسی حکومت کا حصہ بننا، کسی حکومت سے علیحدگی اختیار کرنا، اہم عہدے حاصل کرنا، ضرورت پڑنے پر زیادہ اختیارات کے لیے کسی اور سے ملنا اگر یہ سب کچھ کرنے کے باوجود بھی ملک کے سب سے اہم شہر کے بنیادی مسائل جوں کے توں ہیں تو پھر سب سے زیادہ اعتراضات ایم کیو ایم پر ہی آتے ہیں۔ درحقیقت ہمارے مسائل کی بڑی وجہ حکمرانوں کی عدم توجہی ہے۔ کیوں ہم پانی ذخیرہ کرنے کے لیے مناسب اقدامات نہیں اٹھاتے ہمیں مدد ملتی ہے لیکن اس سے فائدہ نہیں اٹھاتے حب ڈیم میں پانی کی بلند ہوتی سطح بھی ہمارے لیے ایک سبق ہے۔ اگر ہم قدرتی وسائل سے فائدہ نہ اٹھائیں اور پھر روتے رہیں تو اس کی ذمہ داری حکمرانوں پر ہی عائد ہوتی ہے۔
پنجاب کے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ نون کو یقین ہے کہ وہ تمام سیٹیں جیت جائے گی۔ اس میں تو کچھ شک نہیں کہ انہیں یہ بھی یقین ہے کہ صرف بیس سیٹیں ہی نہیں بلکہ تین سو پانچ براہ راست انتخاب کے ذریعے تمام سیٹیں حاصل کر سکتے ہیں۔ ان میں یہ اہلیت بھی موجود ہے اور وہ یہ مقصد حاصل کرنے کے لیے کام بھی کر رہے ہیں۔ پہلے انہوں نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت پیپلز پارٹی کو ختم کیا اور اب اسی حکمت عملی کے تحت وہ پی ٹی آئی کو بھی محدود کرنے کی کوششوں میں ہیں۔ آج پیپلز پارٹی کو احساس ہو رہا ہے کہ ماضی میں انہوں نے پنجاب میں کیا غلطیاں کی ہیں لیکن وہ نقصان کے ازالے کی طرف دیکھنے کے بجائے سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر پھر کسی پیچھے کھڑے نظر آتے ہیں اور یہ سوچ رہے ہیں کہ کوئی انہیں جگہ دے گا۔ جب کہ ایسا ہرگز نہیں ہو گا اور نون لیگ تو اپنی جگہ کسی کو نہیں دے گی۔