• news
  • image

 قصور چھوٹے کا نہیں تھا 

بڑے کی عمر دس گیارہ سال تھی، چھوٹا چھ سال کا تھا۔ دونوں کو کراچی سے ان کے مفلس ماں باپ نے نوکری کے لیے ڈیفنس لاہور کے ایک بڑے گھر میں بھیجا تھا۔ 24 گھنٹے کی نوکری کے عوض دونوں کو ملا کر بارہ ہزار روپے کی تنخواہ ملتی تھی اور کبھی نہیں بھی ملتی تھی۔ 24 گھنٹے کی خدمت کے ساتھ ساتھ ایک اضافی ڈیوٹی ان کی گھر والوں سے مار کھاتے رہنا تھا۔ کھانے کو دال روٹی ملتی تھی، اس میں کبھی بلکہ اکثر ناغہ ہو جاتا تھا، مار البتہ بلاناغہ کھانے کو ملتی تھی اور اس کھانے میں بڑی ورائٹی، تنّوع تھا۔ کبھی باپ مار رہا ہے ، کبھی ماں، کبھی ان کا بڑا بیٹا، کبھی چھوٹا بیٹا کبھی یہ بہو کبھی وہ بہو کھانا زیادہ سے زیادہ دن میں دو بار ملتا تھا اور مار کا کوئی وقت نہیں تھا۔ جب کسی کا جی چاہتا تھا، شروع ہو جاتا تھا۔ 
کراچی میں اپنے ماں باپ کو فون پر بتانے کی کوشش بے کار تھی۔ وہ خود جہاں ملازم تھے، اس عمر میں بھی مار کھاتے تھے۔ مار کھانا ان لوگوں کا پیدائشی شعار ہے۔ مار کھاتے پیدا ہوتے ہیں، مار کھاتے کھاتے مر جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر نام اور شناخت بے معنے ہے۔ وقوعہ ہو جائے تو خبر چھپتی ہے، ایک ملازم قتل، فلاں جگہ پر ایک ملازم زنجیروں سے بندھا ہوا برآمد۔ ان کی شناخت عدد سے ہوتی ہے۔ فلاں گھر میں دو ملازم ہیں۔ فلاں گھر میں تین تھے، اب دو رہ گئے، ایک مار کھاتے کھات ے مر گیا۔ ایک، دو تین۔ یہ ان کا تعارف بھی ہے، اوقات بھی۔ 
عید پر گھر میں گوشت کے پکوان بنے۔ گوشت کی مہک سارے گھر میں تھی۔ ہر کوئی ہر وقت گوشت ٹھونس رہا تھا۔ بھنا ہوا، مصالحے والا، باربی کیو۔ بڑا حوصلے والا تھا، چھوٹا سہما ہوا رہتا تھا۔ چھوٹے کا کوئی قصور نہیں تھا، سارا قصور بڑے کا تھا جس نے ہمت کر کے آس بھری عرض تمنا کر دی کہ ایک بوٹی ہمیں بھی دے دو۔ جواب میں ڈانٹ پڑی اور مار بھی۔ عید کا سارا دن اور تمام شب گوشت کی بوٹی کے تصور میں گزر گئی۔ کام میں رعایت کا تو سوال ہی کہاں تھا۔ عید پر کام ویسے بھی بڑھ جاتا ہے، دو بھائی کم پڑ گئے۔ دو ہی تھے، دو اور ہوتے تو ماں باپ انہی پیسوں میں انہیں بھی رکھوا دیتے۔ 
ٹرو کے روز دونوں بھائیوں کی ’’حرص‘‘ چمک اٹھی۔ لذیذ بوٹی، مزے دار بوٹی، جس کی مہک اتنی جان لیوا تھی، برداشت نہیں ہو رہی تھی۔ کیا کرتے؟ مانگنے کا نتیجہ بھگت چکے تھے۔ ایک فرج میں بڑے کا گوشت بھرا ہوا تھا، دوسری میں بکرے کا اور تیسری میں بھنا ہوا، مصالحوں والا گوشت تھا، بوٹیوں کے انبار، برتنوں کے برتن بھرے ہوئے۔ ایک ایک بوٹی چرا لیں، کسی کو کیا پتہ چلے گا، اتنے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ بڑے نے چھوٹے سے کہا، فکر مت کرو، میں ہوں نا۔ آج ایک ایک بوٹی تو کھا کر رہیں گے۔ میں بوٹی نکالوں گا، تم نظر رکھنا، کوئی دیکھ تو نہیں رہا۔ 
چھوٹے نے نظر رکھی لیکن اس کی نظر اسی کی طرح چھوٹی تھی، کوئی دیکھ رہا تھا، اسے خبر تک نہ ہوئی۔ بڑے بھائی نے دو بوٹیاں نکالیں لیکن وہ منہ تک نہ پہنچ سکیں۔ دیکھنے والے قہر بن کر ان پر ٹوٹ پڑے، سب نے حصہ لیا کسی نے لات ماری، کسی نے تھپڑ۔ پھر سب ایک طرف ہٹ گئے اور مجرموں کو سزا دینے، سزا کے عمل کو انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری بڑے بیٹے ابوالحسن پر ڈالی۔ ابوالحسن اور اس کی بیوی پہلے بھی اس کام میں مہارت رکھتے تھے اور بلاناغہ اس مہارت کا مظاہرہ کرتے تھے۔ باقی گھر والے ’’انصاف‘‘ کی فراہمی کا یہ منظر دیکھتے رہے اور داد دیتے رہے۔ 
ابوالحسن نے خوب انصاف کیا جس کی داد تھانے والوں نے مجرم کی لاش کا معائنہ کرنے کے بعد دی۔ پولیس والوں نے بتایا ، یہ مت پوچھو، لاش کے جسم پر کہاں کہاں زخم تھے، یہ پوچھو کہاں کہاں نہیں تھے۔ اخبارات میں تصویریں نہیں چھپیں، لیکن سوشل میڈیا پر آئی ہیں۔ پشت کی طرف سے، گردن سے لے کر کولہوں تک کا تمام جسم کالے نیلے نشانات سے چھپا ہوا تھا۔ نیچے زیر جامہ، سر پر بال تھے، پتہ نہیں چل سکا وہاں کہاں کہاں کیسے کیسے زخم اور گومڑ ہوں گے۔ 
بڑے کا نام کامران تھا، حوصلے والا تھا، حوصلے سے مار کھاتا رہا، حوصلہ نہیں ہارا، جاں ہار گیا۔ چھوٹا رضوان سہما رہتا تھا، ہسپتال میں پڑا ہوا ہے بول نہیں رہا۔ پتہ نہیں سہما ہوا ہے یا ہوش سے بے گانہ ہو گیا ہے۔ علاج ہو رہا ہے لیکن زخم اتنے ہیں گنے نہیں جاتے۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے شاید بچ جائے۔ 
قاتل گھرانہ پریشان ہے۔ نصراللہ پریشان ہے، محمود الحسن پریشان ہے، نصراللہ کی بیوی شبانہ پریشان ہے۔ یہ کیا آفت آ پڑی۔ ٹرو کے دن تو مہمان آنے تھے۔ ان کے ساتھ جشن ہونا تھا، یہاں حوالات کی ہوا کھانی پڑ گئی۔ گھر کے باقی لوگ اور ابوالحسن مفرور ہیں، لیکن جہاں بھی ہوں گے پریشان ہوں گے کہ موج میلے کے دن تھے، چھپنا پڑ گیا۔ 
محترم قاتلو۔ پریشان مت ہو۔ دو چار دن کی بات ہے، ضمانت ہو جائے گی۔ مزے مزے سے گھر واپس آ جائو گے اور نئے ملازموں کی تلاش شروع کر دو گے جو جلد مل جائیں گے کہ ان کی کمی نہیں۔ 
قاتلوں کے پاس البتہ ایک اور آپشن بھی تھا جو انہوں نے استعمال نہیں کیا۔ ’’مجرموں‘‘ پر تشدد کرنے اور ان میں سے ایک کو ہلاک کر دینے کے بجائے ان پر ’’بوٹی چوری‘‘ کا مقدمہ کرا دیتے۔ عمر بھر ضمانت نہ ہوتی۔ جیل میں ہی بڈھے ہو جاتے، وہیں مر جاتے۔ لیکن اس صورت میں مارنے کا شوق کہاں سے پورا ہوتا۔ اور یہ تو سنا ہی ہو گا کہ شوق دا کوئی مل نہیں۔ 
سوشل میڈیا پر نہ جانے کیا کچھ لکھا جا رہا ہے۔ قاتلوں کو سزا دی جائے۔ عبرت ناک سزا دی جائے، موت کی سزا دی جائے۔ لا حول ولا۔ دس برس سے ایسے واقعات کو نوٹ کرنے والے جانتے ہیں کہ ہر ہفتے ایسے ملازم بچے کی موت کی کوئی نہ کوئی خبر آتی ہے۔ سبھی کے قاتل پکڑے جاتے ہیں اور دوچار روز میں چھوٹ جاتے ہیں۔ دس برس میں ایک بھی خبر، جی ہاں، ایک بھی خبر ایسی نہیں پڑھی کہ کسی کو سزا ہوئی ہو۔ پاکستان میں قانون کا ’’قا‘‘ قاتل کے ’’قا‘‘ کا ہمزار ہے، جڑواں ہے، یہاں سزا قاتل کو ہے، نہیں مقتول کے لواحقین کو ملتی ہے۔ 
پنجاب میں قانون ہے جس کے تحت کمسن بچوں کو گھریلو ملازم نہیں رکھا جا سکتا لیکن یہ قانون کہاں نافذ ہے، کوئی نہیں جانتا۔ پنجاب کی ہر ایلیٹ اور سیمی ایلیٹ ہائوسنگ کالونی کے ہر گھر میں دو یا دو سے زیادہ ملازم ہیں۔ 
بارش ہو رہی ہے۔ کامران کی قبر گیلی ہو گی۔ کچھ فاصلے پر بچے بارش میں نہاتے ہوئے ناچ رہے ہوں گے، ان کی مائیں انہیں گھر بلا رہی ہوں گی۔ کامران جیسے ہزاروں بچوں کے نصیب میں بارش کا نہانا نہیں لکھا۔ ہاں ان کی قبریں ضرور نہاتی ہیں، ہر بارش میں نہاتی ہیں۔ ان کی مائیں انہیں گھر نہیں بلاتیں۔ قبر تو اس چار سالہ بچی مزلفہ کی بھی بھیگ گئی ہو گی جسے عید سے چند دن پہلے باغ سے جامن چرانے کے جرم میں فیروزوالا کے زمیندار مبشر علی اور اس کے بیٹے اللہ وارث نے اینٹیں مار مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ مزلفہ نے یہ جامن درخت پر چڑھ کر چوری نہیں کئے تھے۔ چار سال کی تھی، درخت پر چڑھ ہی نہیں سکتی تھی۔ یہ جامن نیچے زمین پر گرے تھے۔ اس نے زمین پر گرے جامن چرائے تھے۔ 
مبشر علی اور اللہ وارث اب تک رہا ہو چکے ہوں گے، نہیں ہوئے تو ہو جائیں گے اور ہر بارش میں مزلفہ کی قبر گیلی ہوتی رہے گی یہاں تک کہ بے نشاں ہو جائے گی۔ 

epaper

ای پیپر-دی نیشن