ہمیں سوچنا ہے
سچ بولنے کی پاداش میں زہرکاپیالہ پینے والے عظیم یونانی فلسفی سقراط کا کہنا ہے کہ ہرشخص فطرتاًخیرکا طالب ہے لیکن جہالت کی وجہ سے وہ'شر'کو'خیر'سمجھ لیتا ہے"یہ ناچیز سقراط کے قول میں'شر' کے ساتھ'لالچ' کا بھی اضافہ کرنے کی جسارت کریگا کہ خیرکا طالب اپنی'جہالت' یا پھرکسی'لالچ' کی بنا پر شرکوخیر بنا لیتا ہے۔ امریکہ کی پاکستان کے ساتھ دوستی کا معاملہ بھی کچھ اسی طرح کا ہی ہے۔ عمران خان کے'ابسولیٹی ناٹ'سے شروع ہونے والی کہانی بظاہر تحریک عدم اعتماد پرختم ہوئی مگر دراصل کہانی تو ابھی شروع ہوئی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد اسلام آباد کے جلسے میں عمران خاں نے امریکی دھمکی آمیزخط لہرا کے قوم کوغیرملکی آقائوں کی غلامی سے نجات کاایک نعرہ دیا تو دوسری طرف جواباً شہبازشریف کا یہ بیانیہ سامنے آگیا کہ "بھکاریوں کے پاس سوائے غلامی کے کو ئی دوسرا راستہ نہیں ہوتا" ان دو انتہائی مخالف آراء نے پوری قوم کو دو حصوں میں تقسیم کردیا۔ ایک وہ طبقہ جو امریکہ کی غلامی سے نجات کے بیانیے پر عمران خان کے کندھے سے کندھا ملاکر سڑکوں پر نکل آیا جن کا مؤقف ہے کہ کبھی کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتی‘ جب تک کہ اسکی خارجہ اور معاشی پالیسی آزاد نہ ہو۔ دوسری جانب شہبازشریف کے ساتھ (ن) لیگ کے سرکردہ رہنمائوں احسن اقبال، خواجہ آصف، خواجہ سعدرفیق، خاقان عباسی اورانکے حامیوںکا بھی پختہ یقین ہے کہ امریکہ جیسی سپرپاورکی جی حضوری میں ہی ہماری عافیت ہے۔ لہٰذا پاکستان کی گاڑی کو اسی پٹڑی پر ہی چلنے دیاجائے۔ انکے علاوہ پی ٹی آئی دور میں ساڑھے تین سال گورنری کے مزے لینے کے بعد چودھری سرور نے اچانک نکالے جانے پر عمران خان پر شدید برہم ہوکر ان کو امریکی مخالفت کے خوفناک انجام سے متنبہ کرتے ہوئے لیبیا، شام، عراق کے حشر نشرکی مثالیں بھی دے ڈالیں۔ یہ الگ بات ہے کہ چودھری سرورکو امریکہ کو سبق سکھانے والے ویت نام، شمالی کوریا وینزویلا اورکیوبا یاد نہیں آئے۔ یہ سب لوگ ببانگ دہل یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ ہمیں امریکہ کی مخالفت بہت مہنگی پڑیگی۔ اگر امریکہ روس سے کم نرخوں پر پٹرول یا ایران سے سستی گیس کے معاہدوںکو ناپسند کرتا ہے تو ہمیں اس سے باز رہنا چاہیے۔ بھلے ہماری معیشت کا بھرکس ہی کیوں نہ نکل جائے۔مگر ان دو انتہائی مختلف نقط نظرمیں پہلی بات تو یہ کہ ہم ایک غریب ملک ضرور ہیں مگربھکاری ہرگز نہیں۔ بھکاری اورغریب ہونے میں زمین آسمان کا فرق ہے اوراتنا ہی بڑا فرق امداد لینے اور بھیک مانگنے میں بھی ہے۔ ہم نے کبھی بھی امریکہ سے بھیک نہیں مانگی اور جہاں تک امریکی امداد کا تعلق ہے توامریکہ نے ہمیں جب بھی امداد دی ہمیں اسکی ایک بھاری قیمت چکانا پڑی۔ اپنی قوم کو امریکہ کے بھکاری کا درجہ دینا انتہائی معیوب بات ہے ۔ اسی لیے تو عمران خان کے اس بیانیے پر عوام کا ایک سیلاب امنڈآیا‘ اگر دنیا کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلے گا کہ دنیا میں انقلاب برپا کرنیوالے80 فیصد عظیم لیڈراور سائنسدان غریب گھروں میں پیدا ہوئے نہ کہ بھکاریوں میں البتہ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ دنیا میں آج تک کسی صنعتکار یا بزنس مین نے بھی کسی قوم کی تقدیر نہیں البتہ اورسیاست میں خریدوفروخت کا بازارگرم ہوجائیگا اور بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پچھلے تیس پینتیس سال سے یہی کچھ ہورہا ہے تاکہ ہم پاکستانی ایک غریب قوم ہیں اور ہمارا غیرملکی امدادوں کے بغیرگزارہ نہیں ہے تو کیا آپ نے یہ طے کیا ہوا ہے کہ ہم نے ہمیشہ غریب ہی رہناہے اوراپنی اگلی نسلوں کوآٹے،چینی،دال کے بھاوکے چکروں میں ہی پھنساکر رکھنا ہے اور بھکاری کا اعزاز بخش کے جانا ہے؟۔عمران خان میں بہت سی خامیاں ہونگی مگراس حقیقت کونہیں جھٹلایاجاسکتاکہ عمران خاں ایک مخلص، دیانتدار،پرعزم لیڈرہے جوہراندرونی وبیرونی طاقت سے ٹکرانیکی قوی جرات رکھتاہے۔یہ ہمیں سوچناہے کہ ہمیں اس وقت سے کتنااورکس طرح فائدہ اٹھانا ہے ایک طرف ہمارا قریبی ہمسایہ اوربھرپور اتحادی چائینہ دنیامیں ایک اکنامک سپرپاور کے طورپر اپنالوہا منواچکاہے تو دوسری طرف امریکہ کیاتحادی اورنیٹو میں شامل مغربی جرمنی اورفرانس جیسے ممالک بھی چین سے تجارتی تعلقات بڑھارہے ہیں،خطے کے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کو غنیمت جانتے ہوے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی کو بدلنا ہوگا اورنئی راہیں تلاش کرنا ہونگی،جہاں تک امریکہ کی مخالفت پر بھیانک انجام کاتعلق ہے توتاریخ گواہ ہے کہ وہ برطانوی ہوں یا امریکن، انکوکبھی بھی مسلمانوں کیخلاف ناپاک مقاصد میں کامیابی نصیب نہیں ہوئی۔