• news

اب بچوں کو یہ سب بتانا پڑے گا

میری آج کی تحریر ہم سب کیلئے ہے ، خصوصی طور پر والدین کیلئے اور ان کیلئے بھی کہ جو آج تو نہیں مگر مستقبل میں ماں باپ بنیں گے، یا وہ ابھی بہن، بھائی یا کوئی بھی فرد ہیں ، تو یہ تحریر آج گھر کے ہر فرد کیلئے ہی ہے مگر خصوصی طورپر ان والدین کیلئے کہ جن کے بچے ابھی کم عمر ہیں۔چونکہ معاشرے میں اقدار کا شدید فقدان ہے اور گرتی ہوئی قدروں کے ساتھ روز ہمیں نئے نئے اندھو ناک واقعات سننے کو ملتے ہیں جن میں سے اکثر کا شکار معصوم بچے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے میں کل ہی ڈاکٹر زینب نئیر کی گفتگو سنی جس نے حقیقت میں رونگٹے کھڑے کر دئیے۔ اصل میں وہ چھوٹے بچوں کے ساتھ ہونے والے زیادتی اور ذہنی استحصال کے بارے میں گفتگو کر رہی تھیں اور روز بروز بگڑتی ہوئی صورتحال اور اس حوالے سے جو اعداد و شمار ہیں وہ بہت ہی خوفناک ہیں ۔ مگر اس تحریر میں ان اعداد و شمار پر بات کرنے کی بجائے میں ان کی روک تھام کے حوالے سے جو ممکنہ اقدامات والدین اُٹھا سکتے ہیں ان پر روشنی ڈالنا چاہوں گا اس میں سب سے پہلے تو ہمیں اپنے بچوں کو سمجھانا ہو گا کہ کسی بھی صورت کسی کی گود میں نا بیٹھیں ، ہمیں اپنے بچوں کی عادات کو بغور دیکھنا ہو گا اور انہیں مخصوص انداز میں ڈھالنا ہو گا کہ وہ خود کو کسی بھی ایسے واقع کی نذر ہونے سے بچا سکیں اور اس میں خصوصی طور پر چھوٹی بچیوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ کسی صورت کسی کی گود میں نا بیٹھیں چاہے وہ آپ کا رشتہ دار ہو، سگا ماما چاچا ہی کیوں نا ہو؟ ایسا نہیں کرنے دینا۔ 
اسکے بعد والدین کو بھی سمجھنا ہو گا کہ آج کل کے بچے بہت جلدی نئی چیزوں کو سیکھ رہے ہیں سو جب آپکے بچے کی عمر دو سال ہو جائے تو کسی صورت انکے سامنے کپڑے نا بدلیں اور ایسی صورت میں ان سے معذرت کریں اور انہیں کمرے سے باہر بھیجیں یا خود دہاں سے جائیں۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمارے یہاں آج کل بے تکلفی کا کافی رواج ہے تو کوشش کریں کے کسی بڑے کو بچو ںکو ’’میری بیوی ‘‘ ، میرا شوہر‘‘ جانو، سونو جیسے القابات سے پکارنے سے پرہیز کریں اور اگر کوئی ایسا کرے تو پر خصوصی نظر رکھیں ۔ آج کل بچوں کی گراونڈ میں ہونے والی سرگرمیاں بہت ہی محدود ہیں پر اگر آپ کے بچے باہر کھیلنے کیلئے جا رہے ہیں تو اُن پر بہت زیادہ نظر رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ زیادہ تر جنسی تشدد یا ہراسگی کے واقعات یہیں پیش آتے ہیں جہاںبڑے یا طاقتور بچے دوسروں کا استحصال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اسکے علاوہ اپنے بچوں کو کبھی زور زبر دستی کسی ایسے بڑے کے ساتھ بھیجنے کی کوشش نا کریں کہ جس کے ساتھ جانے میں بچے ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کریں یا وہ آپ کو آپشن دینا شروع کر دیں۔اسکے ساتھ ساتھ ایسے بڑوںپر بھی ضرور نظر رکھیں کہ جن کے ساتھ آپکے بچے بہت زیادہ مانوس ہو جائیں۔اس مانوسیت کی وجہ کہیں کوئی اور غلط اقدام تو نہیں۔ اگر کبھی آپ کا ہنستا کھیلتا بچہ اچانک چُپ ہو جائے اور الگ رہنا شروع کر دے تو ایسی صورت میں اس سے سوال جواب کریں اور اسکی پریشانی کا سبب پوچھیں اور جتنے زیادہ سوال کر سکتے ہیں وہ کریں۔اسکے ساتھ ساتھ آپ کیلئے بہت زیادہ ضروری ہے کہ آپ اپنے بچوں کی اچھی تربیت خود سے کریں ورنہ بہت جلدی ہمارا معاشرہ انکی خراب تربیت کرنا شروع کر دیگا اور انکی معصوم شخصیت کو بگاڑ دیگا۔ انہیں انکے ’’صنف (Gender) کے بارے میں بتانا شروع کریں اور انہیں اسکے بارے میں آہستہ آہستہ آگاہی دیں۔اسکے علاوہ انہیں اس سے جڑے اچھے اور برے کے کا فرق سمجھائیں ۔ انہیں انکے مخصوص اعضاء کو صاف کرنے کے بارے میں تربیت دیں اور انہیں سمجھائیں کہ وہ کسی کو بھی انہیں چھونے کی اجازت نا دیں۔ اگر کوئی ایسا کرے تو اسکے بارے میں آپ کو بتائیں۔آج کل بچوں کو موبائیل فون دینا ایک عام بات ہے اور ہم میں سے اکثر خوش ہوتے ہیں کہ جب چھوٹے چھوٹے بچے رقاصاوں کی ویڈیوز دیکھ کر ان پر ویسا ہی رقص کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس لئے ضروری ہے کہ بچوں کے ساتھ خود کھیلیں اور اگر انہیں موبائیل فون دینا ضروری بھی ہو تو انہیں خود سے کارٹون ڈاون لوڈ کر کے دیں نا کہ وہ خود Youtubeسے اپنی مرضی کے کارٹون دیکھ کر خود کو اسی طرح سے ڈھال لے گا۔ جتنا ممکن ہو سکے پیرنٹل کنٹرول کو استعمال کریں اور جو مواد آپ نہیں چاہتے اسے بلاک کر دیں۔اور آخر میں سب سے زیادہ ضروری اگر آ پ کا بچہ کسی کے بارے کو ئی شکایت کرے تو اسکی بات کو سنیں اور اسکے خلاف کو نا کوئی ایکشن ضرور لیں تا کہ انہیں احساس ہو کہ وہ اکیلے نہیں ہیں اور آپ انہیں ہر مشکل میں بچا لیں گے۔ یہ وہ چھوٹے چھوٹے چند اقدامات ہیں کہ جن پر عمل کر کے والدین اپنے بچوں کو کسی خوفناک حادثے سے بچا سکتے ہیں اور انکی شخصیت کو نکھار سکتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن