قدرتی آفات میں بے یارو مدد گار بلوچستان
ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کا جغرافیائی محل وقوع بہت عجیب ہے جہاں ہزاروں کلو میٹر پر پھیلے دشت و بیاباں رتیلا ساحل اور خشک پہاڑی سلسلے ہیں۔ پانی کی یہاں قلت ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں کلومیٹر زرعی اراضی ویران پڑی ہے۔ سالانہ اوسطاً صرف 5 انچ بارش ہوتی ہے۔ اسکے باوجود یہاں کے جفاکش عوام بارش کی امید پر کھیتوں میں ہل جوت کر بیج بکھیرتے ہیں کہ جب بارش ہوگی تو کچھ نہ کچھ ضرور اگے گا۔ بلوچستان کا بیشتر علاقہ پہاڑی یا میدانی ہے۔ جہاں اگر تیز بارش ہو تو پہاڑی ندی نالوں سے بہہ کر آنے والا منہ زور پانی آس پاس کی آبادیوں کو تہہ و بالا کر دیتا ہے۔ اور نقصان کا باعث بنتا ہے۔
اس صوبے کی خوش نصیبی ہے کہ انگریزوں نے یہاں مضبوط ریلوے لائن اور سڑکوں پر پل بنائے جو آج ڈیڑھ سو سال بعد بھی ہر منہ زور طوفان کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں۔ خوشدل خان ڈیم چمن اور پشین کے درمیان آج بھی برسات کا ہزاروں ایکڑ پانی اپنے دامن میں سمو لیتا ہے اور بھر جاتا ہے۔ اسی طرح کوئٹہ میں ہنہ جھیل کا مضبوط ڈیم طوفانی بارش کا ہزاروں ایکڑ پانی برداشت کرکے اپنی جھیل کو بھر دیتا ہے۔ مگر افسوس صد افسوس اس صوبے کی بدنصیبی یہ ہے کہ آزادی کے بعد یہاں کے اپنے لوگوں نے حکومتوں کے وزیروں مشیروں نے اسے جی بھر کر لوٹا۔ پانی جمع کرنے والے ڈیموں کی فہرست اٹھا کر دیکھیں قیام پاکستان کے بعد جو بھی ڈیم یا بند بنا وہ ایک ہی برسات میں کسی کچے مکان کی دیوار کی طرح ڈھے گیا۔ ہر سال کروڑوں نہیں اربوں روپے ان حفاظتی ڈیموں اور بند باندھنے کے نام پر حکومت جاری کرتی ہے جو متعلقہ محکمہ کے وزیر سرکاری افسر اور ٹھیکیدار شیر مادر سمجھ کر ہضم کر جاتے ہیں۔ دو نمبر ناقص کام کرکے خزانے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ کئی علاقوں میں تو صرف سرکاری کاغذوں میں یہ ڈیم اور بند تعمیر ہوتے ہیں۔ ان کا حقیقت میں وجود ہی نہیں ہوتا۔
یہ سب باہر سے آنیوالے نہیں کر رہے صوبہ بلوچستان کے اپنے لوگ ہیں جو دیمک کی طرح اس صوبے کے عوام پیسے لوٹ رہے ہیں۔ اب ان کو نشان عبرت بنانے کا وقت آ گیا آج ان سے پوچھا جائے کہ یہ ڈیم اور حفاظتی بند کیا ریت سے تعمیر کئے گئے تھے یا نمک سے جو پانی میں بہہ گئے یا گھل گئے۔ اس لوٹ مار کا حساب تو لینا ہی ہوگا۔ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوگی کہ سبی سے لسبیلہ، خضدار، مستونگ ، مچھ، لورا لائی سے ژوب قلعہ سیف اﷲ ، پشین ، بارکھان، ہرنائی، چمن، کوھلو تک مون سون کی بارش نے تباہی مچا دی ہے۔ کازوں کے بنائے پل اور ڈیم تو سلامت ہیں۔ ہم مسلمانوں کے بنائی کوئی چیز باقی نظر نہیںآ رہی۔ زلزلہ ہو یا سیلاب یا وبائی امراض انکے سبب سب سے زیادہ بری حالت بلوچستان کی ہوتی ہے۔ وہ لاوارثوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ اگر اس موقع پر پاکستان آرمی والے بروقت امداد کو نہ پہنچیں تو حالات مزید ابتر ہو جاتے ہیں آخر ہر آفت پر ہماری صوبائی حکومت خود کیوں اپنے وسائل سے قابو کیوں نہیں پاتی۔ سب سے پہلے فوجی جوان وہاں جا کر امدادی کام شروع کرتے ہیں کھانا پینا ، خیمے کمبل ادویات علاج معالجے کے سینٹر کھول کر کام کرتے ہیں۔ یہ صرف بلوچستان میں ہی نہیں پورا ملک میں ہوتا ہے۔ سیلاب ہو یا زلزلہ یا کوئی وبا سندھ ، پنجاب، خیبر پی کے سب جگہ فوری طور پر فوج طلب کی جاتی ہے۔ اس میں کوئی قباحت نہیں مگر خود صوبے کے حکمران اور انتظامیہ اسی مستعدی سے فعال کیوں نہیں ہوتے۔بلوچستان میں اس وقت پری مون سون کی بارشوں نے جو تباہی مچی ہے اس نے صوبائی حکومت کی بدانتظامی کا پول کھول دیا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں بارش اور سیلاب میں 64 افراد جان گنوا چکے۔ سینکڑوں مکانات منہدم ہو گئے اور درجنوں افراد زخمی ہوئے ان متاثرہ علاقوں میں ابھی تک فوج کے جوان ریسکیو آپریشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اس سے قبل شیرانی کے علاقے میں پہاڑی جنگلات میں لگنے والی آگ سے ہزاروں چلغوزے اور صنوبر کے قیمتی درخت جل کر خاک ہوگئے۔ اس آگ پر بڑی مشکلات سے قابو پایا گیا۔ چند ماہ قبل ڈیرہ بگٹی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں گیسٹرو اور ڈائریا کی وبا پھیلی تو ا س سے بھی ہزاروں افراد متاثر ہوئے۔ قدرتی آفات کا شکار اس صوبے میں حکومت کی طرف سے کوئی ایسا انتظام نظر نہیںآ رہا۔ جس سے بروقت یہاں کے پسماندہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکتا۔ یہاں بھی پاک فوج نے بروقت امدادی کارروائی کرتے ہوئے حالات سنبھالے اسی طرح جب زلزلہ آیا تو متاثرہ علاقے میں ساری امدادی کارروائی بھی راتوں رات فوج نے کی۔اس سلسلے میں صوبائی حکومت کی بے حسی نہایت افسوسناک ہے۔ ایسے صوبے میں جہاں پہلے ہی پسماندگی زیادہ سے تعلیم صحت و آمدورفت اور روز گار کے وسائل بہت کم ہیں۔ حکمرانوں کی لاپروائی کی وجہ سے ہی احساس محرومی جنم لیتا ہے جو بعدازاں نوجوانوں کو گمراہی کی طرف مائل کرتا ہے۔ ہمیں اس طرح کی غفلت کسی صورت نہیں کرنی چاہئے۔ لوگ مطمئن ہوں انہیں بروقت ریلیف ملے تو وہ خود حکمرانوں اور حکومت کی تعریف کرینگے۔ مگر یہاں تو ہم خود ہی غلط کرتے ہیں اور پھر روتے ہیں۔