فکری بددیانتی
سفر زندگی کا ہویا گاڑی کا، خاموشی سے کٹے نہیں کٹتا۔ہمیں تعزیت کے لئے چار سو کلومیٹر کی مسافت پر ایک عزیز کے ہاں جانا تھا۔گاڑی میں دیگر احباب کے علاہ دو سگے بھائی بھی سوار تھے، جن میں باہمی محبت اور لحاظ کی لوگ مثالیں دیا کرتے ہیں۔ تاہم دونوں کی سیاسی وابستگیاں مختلف جماعتوں سے ہیں۔گاڑی میں بیٹھتے ہی بڑے بھائی نے اپنے ’’ سیاسی عقیدہ ‘‘ کے مخالفین پر تنقیدو تنقیص کا آغاز کردیا۔جب لفظوں کا چنائو دلخراش حد تک مغلّظات کی دھونکنی پھونکنے لگاتو چھوٹے بھائی سے نہ رہا گیا۔ اُس نے حالات و معاملات سے زیادہ آگاہی ہونے کی بنیاد پر بڑے بھائی کی رائے سے اختلاف کیا۔ بڑے بھائی کو یہ بات سخت ناگوار گزری اور انہوں نے چھوٹے بھائی کو گالیوں سے لتاڑ کے رکھ دیا۔چھوٹے بھائی نے حفظ مراتب کا خیال رکھتے ہوئے گالیوں کو پی جانا ہی مناسب سمجھااور خاموشی پر اکتفا کیا۔
صحبت کا سوچ پر گہرا اثرہوتا ہے۔تبھی توکہا جاتا ہے کہ آدمی اپنی صحبت سے پہچانا جاتا ہے۔ آج ہرشعبہ ٔزندگی میں مختلف مکاتبِ فکرکاوجود اسی صحبت کے اثر کی پیداوار ہے ۔کسی صحبت، حلقۂ ارادت یامکتبِ خیال سے تعلق رکھنا ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔تاہم وطنِ عزیز میں ہوس پرستوں،جاہ پسندوں اور موقع شناسوں نے مخالف رائے رکھنے کو گناہِ کبیرہ بنا رکھا ہے۔ اگرمذہب کی بات کریں تو ایک فرقہ کے ماننے والے دوسرے فرقہ کے مسلمانوں کے ساتھ میل جول رکھنے ،ان کے پیچھے یا ساتھ نماز پڑھنے کو نہ صرف حرام سمجھتے ہیں بلکہ بسااوقات انہیں دائرہ اسلام سے ہی خارج قرار دے دیتے ہیں۔یہی حال میدانِ سیاست کا ہے،جہاں احباب اپنے سیاسی راہنمائوں کی تمام تر شخصی کمزوریوں، بدعنوانیوں، نالائقیوں اور ہوس پرستانہ قلابازیوں سے آگاہ ہونے کے باوجود فکر ِمخالف کے سیاسی راہنمائوں کو ہی گالیوں کا سزاوار سمجھتے ہیں۔ بھلے ان میں لاکھ خوبیاں ہوں اور وہ انکے اپنے راہنمائوں سے کہیں بہتر ہوں۔اگر ہم چند ساعتوں کیلئے تنہائی میں خود سے سوال کریں تو عین ممکن ہے، ہمارے اندر سے آواز اُٹھے کہ مخالف جماعت کے سیاسی راہبرشخصی، عقلی، سماجی، دینی، معاشی اور اخلاقی طور پر ہمارے سیاسی پیشوائوں سے افضل ہیں۔مگر دماغ میںکلبلاتی شیطانی اَنا، تنہائی میں اُٹھی ہوئی ضمیر کی آواز کو زبان کا راستہ اپنانے سے روکے رکھتی ہے۔
کبھی ہم نے سوچا ہے کہ اس تشکیلِ احوال کا ذمہ دار کون ہے؟بلاشبہ اس کے سزاوار وہ دانشور ہیںجن کی ذ مہ داری بلاغرض و غایت عوام کی فکری پرورش کرنا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ اصل دانشور اپنی عزت نفس اور تقدیس رائے کے تحفظ کی خاطر زیر زمین چلے گئے ہیں اور موجودہ عقلی فضاء میںوہ خود سے اپنی رائے دینے سے گریز پاہیں۔ان کی عدم موجودگی کے خلا کو پُر کرنے کیلئے کچھ نیم خواندہ اور خودساختہ دانشور اپنی کلاکاریاں دکھاتے پھرتے ہیں۔انہیں دانشور کہنا’’دانش‘‘ کے تصور پر گہرا سیاہ دھبہ ہے۔کیونکہ دانشور کی زبان سے ہمیشہ سچ نکلتا ہے۔ جو وہ دیکھتا یا محسوس کرتا ہے، وہی بیان کرتا ہے۔خواہ اس کیلئے اُسے زہر کا پیالہ ہی کیوں نہ پینا پڑے۔معروف دانشور سقراط کو اسکے شاگردوں اور پیروکاروں نے ترلے کیے کہ وہ عدلیہ کے سامنے ’’ لگی لپٹی‘‘ ــسے کام لے اور اپنی رائے کی گونج کو بلند نہ ہونے دے۔مگر اُس مردِباخصال نے جواب دیا، ’’مجھے موت سے ڈراتے ہو؟سچ کو کبھی موت نہیں آتی۔ مجھے جھوٹ بولنے سے مرجانا زیادہ قبول ہے‘‘۔پھر جب اُسے جیل کی کوٹھڑی میں ڈالا گیا تو ملاقات پر آنے والے ا سکے عقیدت مندوں اور جیل کے عملہ نے اُسے جیل سے بھاگنے میں معاونت کی پیشکش کی۔جسے اس نے سچائی کاتمسخرگردانتے ہوئے یکسر رد کر دیا اور سزا کے مقررہ دن پر اپنے ہاتھوں سے زہر کا پیالہ حلق سے اتار لیا۔
دوسری طرف ہمارا آج کا دانشور قبیلہ ہے۔کہنے کو تو وہ سقراط کے پیروکار ہیں۔لیکن وہ جہاںبھی زرخیز زمین دیکھتے ہیں،وہیں پر پڑائو ڈال لیتے ہیں۔ ان ’’پیشہ ور ‘‘ دانشوروںــکی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ جھوٹ اور سچ کے درمیان ناقابلِ شکست دیوار کھڑی کریں۔ مگر وہ ایسا اس لیے نہیں کر پاتے۔ اسی لیے انکی بھاری اکثریت مختلف ’’سیاسی سائبانوں‘‘ تلے ’’قربتِ شاہ‘‘ میں ’’ رزق کشادہ‘‘ سے فیض یاب ہو نے پرمائل رہتی ہے۔جو’’ شاہ ‘‘ نے کہا اُسے تڑکا لگا کر، ذائقہ میں کئی گنا لذ ت بڑھا کر ، کبھی ٹی وی چینل پر بیٹھ کر ، کبھی صفحہ قرطاس پر اتر کر ، اور کبھی سوشل میڈیا کی دل فریب وادیوں میں جا کر خاص وعام کے گوش گزارکرتے ہیں۔آج ہمارے چارسُو جھوٹ کی مشینیں حقائق اورتاریخ کی سچائی کو دھڑ ادھڑ مسخ کرنے پر لگی ہیں۔ جھوٹ کی دیوار کے پیچھے سے سچ سامنے آنے کو سسکتا اور تڑپتا پھرتا ہے۔مگر جھوٹ کی دیواروں کی اونچائی اور اسکے اُوپر چڑھا جمِ غفیر سچ کو جھلک دکھانے سے مانع رکھتا ہے۔عوام کو کیا پتہ کہ اس فکری بد دیانتی کی کتنی قیمت وصول کی جا چکی ہے،کہاں کہاںفارم ہائوسز، بنگلوں، سرکاری حج ،عمروں اور سامان تعیش واستراحت سے حسبِ منشا استفادہ کیا جا چکا ہے۔
فکری خیانت پر مبنی ،رائے عامہ کی گمراہ کن فضا میں قلم و زبان کے بطل حریت پیدا کرنے کی ذمہ داری آج دینی و دنیوی درسگاہوںپر آتی ہے۔مگر یہ اُسی صورت میں ممکن ہے جب ان درسگاہوں کے ذمہ داران فکری بددیانتی کی فضاء میں گم گشتہ کھرے سچ کو دیکھنے کی ’’ استطاعت‘‘ رکھتے ہوں۔ یہ ادارے عام آدمی کی آخری امیدہیں۔اگران اداروں نے بھی ا س با رِ ذمہ داری کے اٹھانے سے روگردانی کی تو وطنِ عزیز میں رائے فروشی ’’سیاسی مذہب‘‘ کے ’’اجزا ئے ایمانی ‘‘کا جزو لانیفک رہے گا ، اوریونہی بھائی بھائی کو گالیاں دیتا چلا جائے گا۔