طارق محمود کا حلقۂ ’دامِ خیال‘
’دام خیال‘ جناب طارق محمود کی خود نوشت ہے۔ اردو میں خودنوشتوں کا رواج سال بہ سال بڑھتا ہی چلا جاتا ہے۔ میرے خیال میں یہ سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ خصوصاً جن لوگوں کو زندگی میں وسیع تجربات حاصل ہوئے اور جن کے مشاہدات کا دائرہ بہت وسیع رہا انھیں اپنی زندگی کی کہانی ضرور سنانی چاہیے۔ طارق محمود کو ملکوں ملکوں ہی نہیں تقریباً تمام براعظموں میں سیرو سفر کے مواقع ملے ہیں۔ انھوں نے کہیں ایک عامی کی طرح تکلفات سے عاری رہ کر مشاہدات کیے ہیں اور کہیں ایک خاص الخاص شخص کے طور پر بڑے لوگوں کی باتیں سنی ہیں اور انھیں بھی اپنے خیالات سے آگاہ کیا ہے۔ کہیں ان کے بچپن کے رنگارنگ مشاہدات ہیں اور کہیں وہ بطورِ طالب علم سیکھنے اور فکری الجھنیں سلجھانے کے عمل سے گزرے ہیں۔ کہیں ایک بڑے افسر کے طور پر ماتحتوں پر نظر رکھی ہے اور کہیں بڑے لوگوں کے ساتھ ماتحت کی حیثیت سے کام کیا ہے۔ مجید امجد نے کیا خوب کہا ہے کہ ’دنیا میں بندے پر بندے کی تلوارزینہ بہ زینہ معلق ہے‘۔ قصہ مختصر، ’دامِ خیال‘ ایک ایسی آپ بیتی ہے کہ جس کے تنوع کا مقابلہ بہت کم آپ بیتیاں کر سکتی ہیں۔
طارق محمود نے زندگی کا زیادہ عرصہ ایک بیوروکریٹ کی حیثیت سے طے کیا۔ وہ بہت اہم عہدوں پر فائز رہے۔ اندرونِ ملک بے شمار انتہائی اہم اور نمایاں ترین جگہوں پر کام کیا اور ایک کامیاب بیوروکریٹ کے طور پر بڑی عزت سے زندگی گزاری۔ وہ مزاجاً بیوروکریٹ نہیں ہیں اس لیے وہ جہاں بھی رہے اپنے فرائضِ منصبی ادا کرنے کے ساتھ ساتھ جبر اور استحصال کے اس نظام کے اندر کام کرتے ہوئے مظلوموں کی دستگیری بھی کرتے رہے۔ علاوہ ازیں، وہ ایک اچھے فکشن رائٹر بھی ہیں۔ ادب سے انھیں گہرا لگائو ہے چنانچہ متعدد ادیبوں اور شاعروں سے بھی ان کا ربط ضبط رہا ہے اور اس معاملے میں ان کی مشابہت قدرت اللہ شہاب سے بھی ہے۔
خودنوشت سوانح عمریاں لکھنے والوں میں سیاست دان، بحری، بری اور ہوائی افواج کے اعلیٰ ترین عہدے دار، اعلیٰ انتظامی امورپر فائز باختیار لوگ، ادباء و شعرائ، اساتذہ، وکلائ، اعلیٰ عدالتوں کے منصفین، صحافی اور بہت سے دوسرے لوگ شامل ہیں لیکن چند ہی آپ بیتیاں ایسی ہیں جو پچاس سال کے عرصہ گزر جانے کے بعد بھی پڑھی جاتی ہوں۔ بیوروکریٹس کی خودنوشتوں میں قدرت اللہ شہاب کا ’شہاب نامہ‘ وقت کی حدود سے آگے نکل گیا ہے۔ اس پر بہت کچھ تنقید بھی ہوئی۔ طارق محمود نے اپنی اس خودنوشت میں قدرت اللہ شہاب کا سرسری ذکر کیا ہے اور ان کے Down to Earth ہونے کی ستائش کی ہے۔ میرے خیال میں ’شہاب نامہ‘ مجموعی طور پر ایک بے مثال آپ بیتی ہے۔ شہاب کے روحانی تجربات کے بارے میں تو میں کچھ کہنے سے قاصر ہوں لیکن ان کی بہت سی باتوں کی تصدیق کر سکتا ہوں۔ جب وہ جھنگ میں ڈپٹی کمشنر تھے تو وہ میرا لڑکپن کا زمانہ تھا اور میں وہاں ہائی سکول کا طالب علم تھا۔ 1953ء کے زمانے میں انھوں نے عوام سے رابطہ رکھا جس کی اس زمانے کے ڈپٹی کمشنر سے کوئی توقع نہیں کرتا تھا۔ شہاب جہاں گئے انھوں نے عام لوگوں کے مسائل کی طرف توجہ دی اور کئی شعراء اور ادباء کو فاقہ کشی سے بچانے کے لیے بھی اقدامات کرتے رہے۔ بدقسمتی سے انھیں دائیں بازو والے بائیں بازو کا معاون شمار کرتے تھے اور بائیں بازو والے کٹر مذہبی سمجھتے تھے۔ میں انھیں کیا سمجھتا ہوں اس کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔
طارق محمود کی یہ خودنوشت بعض مقامات پر ’شہاب نامہ‘ سے زیادہ متنوع ہے۔ میں خاص طور پر اس کے اس حصے سے بہت متاثر ہوا ہوں جو انھوں نے افریقہ کے بارے میں لکھا ہے۔ بچپن کے اس زمانے کی یادیں اتنی تروتازہ اور جذبات سے اتنی مملو ہیںکہ فکشن بھی کم ہی اتنی مسحورکن ہوتی ہے۔ یوں لگتا ہے کہ ہم ان کے ساتھ ساتھ افریقہ کے ہمہ رنگ علاقوں کی سیر کر رہے ہیں۔ اسی طرح مشرقی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش) میں انھوں نے اپنی طالب علمی کے دورانیے کو بہت عمدہ انداز میں رقم کیا ہے۔ انھوں نے اس زمانے میں سب کچھ بلاتعصب اور کھلی آنکھوں سے دیکھا اور بعد میں جو کچھ پیش آیا وہ ان کے مشاہدات کی صداقت پر شہادت دیتا ہے۔ طارق محمود مختلف زبانیں سیکھنے میں خاص ذہانت کے حامل ہیں۔ انھوں نے وہاں بنگلہ سیکھی اور اس کی وجہ سے انھیں بہت سی ایسی باتوں کو پوری طرح سمجھنے کا موقع ملا جن تک مغربی پاکستان کے اکثر لوگوں کی رسائی نہ ہو سکی۔ ان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ بنگالیوں کا ایک کلچر ہے۔ وہ مسلمان ہیں لیکن کلچر سے بھی ان کا لگائو بہت گہرا ہے مگر مغربی پاکستان کے حکمرانوں نے اس بات کو سمجھنے کی کبھی کوشش نہ کی اور یہی رویہ بنگلہ دیش کی تشکیل کے لیے سب سے بڑا محرک ثابت ہوا۔
طارق محمود پاکستان کے تقریباً ہر صوبے میں فرائض منصبی انجام دیتے رہے۔ وہ جہاں جہاں گئے ان میں سے بعض مقامات سے میرا بھی کم یا زیادہ تعلق رہا ہے۔ وہ جھنگ میں ڈپٹی کمشنر رہے۔ جھنگ میں میرا لڑکپن گزرا اور پھر میں وہاں سے انٹرمیڈیٹ کر کے نکلا۔ اسی طرح وہ ملتان میں ڈپٹی کمشنر رہے جہاں ان سے چند سال پہلے میں بھی ملتان یونیورسٹی میں ایک سال رہا اور 1980ء کے اوائل میں مستعفی ہو کر پنجاب یونیورسٹی واپس آگیا۔ جھنگ اور ملتان کے بارے میں ان کے خیالات و تأثرات سے آگاہی کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ زمان و مکان کے فرق سے تفہیم کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ جھنگ اور ملتان میرے اقامتی زمانے میں بھی ویسے ہی شہر تھے جیسے طارق محمود کے قیام کے دوران میں تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان مقامات پر خاصی تبدیلیاں آچکی تھیں۔ بیشتر لوگ بھی وہ نہیں رہے تھے۔ ترجیحات بھی اپنی اپنی تھیں اور ہمارا دائرۂ کار بھی بہت مختلف تھا۔ اگر میں اپنی خودنوشت مکمل کر سکا تو کئی جگہ میرا زوایۂ نظر ان سے مختلف ہوگا۔
آخر میں یہ کہوں گا کہ طارق محمود کا امیج اس آپ بیتی سے ایک شائستہ، متحمل مزاج ، انصاف پسند، انسان دوست اور حساس شخص کا ابھرتا ہے جو افسر تو ہے مگر افسرانہ خوبو کا حامل نہیں۔ جس کو اپنے ہم کاروں سے اختلاف ہوتا ہے تو وہ مشتعل ہونے کی بجائے اپنے ردِعمل کا اظہار بڑی شائستگی سے کرتا ہے۔ اس نے کامیاب زندگی گزاری ہے اور اس کامیابی کی وجوہ دیانت داری، معاملہ فہمی، شائستگی، تحمل اور توازن ہیں۔