کراچی ،ایک بارش کی مار
ملک بھر میں طوفانی بارشوں نے غیر معمولی صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ محکمہ موسمیات نے تین چار مہینے پہلے ہی مون سون کی بارشوں کی شدت کے حوالے سے وارننگ دے دی تھی۔ یہاں تک کہا گیا تھا کہ کلاؤڈبرسٹ یعنی طوفانی بارشوں کا خدشہ ہے، لیکن پاکستان میں جب تک مصیبت سر پر نہ آن پڑے، کون کام کرتا ہے۔ ان موسلادھار بارشوں اور طوفانی ہواؤں کے حوالے سے جو اقدام وفاقی، صوبائی حکومتوں اور ریسکیو اداروں کو کرنے چاہیے تھے، وہ نہیں ہوئے۔ نتیجہ آپ کے سامنے ہے کہ آج کراچی مکمل طور پر ڈوبا ہوا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بھی بہت پانی جمع ہے، اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی کوئی منصوبہ بندی نظر نہیں آئی اور پانی جمع ہو گیا ہے۔ اب ان تمام ڈوبے ہوئے شہروں کو اربن فلڈ کا شکار بتایا جا رہا ہے۔
پورے سوشل میڈیا پر کراچی کی تصاویر اور ویڈیوز آ رہی ہیں جن میں آپ کراچی کو مکمل طور پر ڈوبا ہوا دیکھ سکتے ہیں۔بارشیں اس قدر ہوئیں کہ شہر کی گلیاں، ندی نالے سب بھر گئے ہیں، غرض کہ روشنیوں کا شہر، سیلاب میں ڈوبا ہوا ہے۔ ایوی ایشن ذرائع کے مطابق کراچی آنے اور جانے والی 38 پروازیں منسوخ کردی گئی۔ شہر میں کئی گھٹنوں سے جاری بارش ابھی بھی مکمل طور پر نہیں تھمی اور آسمان پر منڈلاتے سیاہ بادل مزید بارش کا پیغام دے رہے ہیں۔ رہائشی علاقوں میں جمع ہونے والے پانی کی مقدار کا یہاں سے اندازہ لگائیں کہ ایک شخص کی ویڈیو وائرل بھی ہوئی جو بچوں کے پلاسٹک والے سوئنگ پول میں بیٹھ اسے کشتی کی مانند استعمال کر رہا ہے۔ حیدرآباد کراچی موٹروے سے ساحلی علاقوں تک پانی ٹھاٹھیں مارتا دکھائی دیتا ہے۔ شہر میں ایسے علاقے بھی ہیں جہاں کئی گھنٹوں تک بجلی اور انٹرنیٹ غائب رہا۔ غریب لوگوں کو تو کوئی دیکھتا بھی نہیں ہے، اکثر ان کے کچے مٹی سے بنے مکان یا خیمے پانی اپنے ساتھ ہی لے جاتا ہے۔ جانی نقصان بھی زیادہ نچلے طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد کا ہی ہوتا ہے، لیکن اس دفعہ ہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ کراچی کے مہنگے علاقے جیسے کہ ڈی ایچ اے میں بھی تین، چار فٹ تک پانی کھڑا رہا۔ تعمیراتی ماہرین کے مطابق ڈیفنس میں بڑی شاہراہیں، آس پاس کی گلیوں اور چھوٹی شاہراہوں سے اونچی رکھی گئی ہیں، بارش کی صورت میں پانی نچلی سڑکوں گلیوں سے ہوتا ہوا گھروں میں داخل ہوجاتا ہے اور اس پانی کو نکالنے کا کوئی ذریعہ نہیں ہے۔کراچی میں 4 سے 11 جولائی تک کی بارشوں کے دوران 24 افراد جاں بحق ہوئے۔ شہریوں کو ٹریفک کے مسائل سے بچانے کے لیے ٹریفک پولیس نے شہر میں بارش سے متاثرہ 145 سڑکوں کی نشاندہی کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ پورا کراچی ہی ایک طرح سے بند ہو گیا ہے۔ یاد رہے کہ کراچی کاروباری اور تجارتی حوالے سے پاکستان کا ایک بہت اہم شہر ہے۔ تقریباً تمام بڑی اور ملٹی نیشنل کمپنیز کے ہیڈ آفس کراچی میں ہی ہیں۔ اب اگر آپ اپنے بزنس پورٹ کا خیال نہیں رکھ سکتے تو سب سے پہلے تو دنیا میں امیج خراب ہوگا کہ کراچی کاروبار کے حوالے سے سود مند شہر نہیں۔ پھر انٹرنیشل بزنس مین دوبارہ کراچی کا رخ نہیں کریں گے اور ہو سکتا کو جو ان کے کاروبار چل رہے ہیں وہ بھی واپس لے جائیں۔ بدھ کو شائع ہونے والے گلوبل لائیوبلٹی انڈیکس 2019 میں اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ (EIU) کے ریسرچ اینڈ اینالائسز ڈویڑن نے کراچی کو دنیا کے 10 سب سے کم رہائش پذیر شہروں میں شامل کیا ہے۔ اس سے زیادہ شرم کی بات کیا ہو سکتی ہے، کہ یہ شہر ایک دور میں پاکستان کا دارالحکومت ہوا کرتا تھا۔ آج اس کا یہ حال ہے کہ یہاں رہنا دشوار ہے۔ دنیا کا ساتواں اور پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی اس طرح ڈوبا ہوا ہے۔
اس ملک کو بنے پچھتر سال ہونے والے ہیں لیکن ابھی تک ہم مناسب سیوریج سسٹم نہیں بنا سکے۔ یعنی سب سے بنیادی چیز پر ہم نے کبھی توجہ دی ہی نہیں۔ پاکستان کے ہر صوبے کا یہی حال ہے، جہاں تھوڑی سی بھی بارش ہوجائے وہاں پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ صرف پنجاب میں ان صورتحال پر کچھ حد تک قابو پایا جا سکا ہے۔ یہ بھی سب شریف برادران کی منصوبہ بندی تھی ورنہ آج سے 25 - 30 سال پہلے ادھر بھی مین روڈ پر تین چار فٹ پانی کھڑا ہونا عام بات تھی۔ گلی محلے میں تو بعض اوقات مسئلے مسائل آجاتے ہیں مثلاً گٹر کا بند ہو جانا لیکن اربن فلڈ جیسے بڑے مسائل کا سامنا پنجاب والوں کو نہیں کرنا پڑتا ، ہم اس سے بالکل محفوظ ہیں۔ کراچی کی بارشوں نے یہ بات بھی واضح کردی ہے کہ سندھ حکومت اور انتظامیہ اپنے کام بالکل نہیں سر انجام دے رہی۔ بارش کے پانی کے حوالے سے نہ ہی کوئی پلاننگ کی گء تھی اور نہ ہی اور سسٹم تیار کیا گیا تھا۔ ایک بڑی مضحکہ خیز بات تو یہ بھی ہے کہ کراچی میونسپل کارپوریشن کا اپنا دفتر جو ایم اے جناح روڈ پر واقع ہے وہاں پر بھی پانی جمع ہوگیا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ پوری دنیا میں بڑی تیزی سے موسمیاتی تبدیلیاں آ رہی ہیں اور پاکستان بھی انہیں کا شکار ہو رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کے باعث گرمیاں مزید گرم ہوتی جا رہی ہیں اور بارشیں بھی زیادہ ہو رہی ہیں لیکن مسئلہ اس بات سے ہے کہ وارننگ ہونے کے باوجود آپ نے کوئی پلاننگ نہیں۔ موسمیاتی ماہرین کے مطابق کراچی کی صورتحال پر قابو پانے کے دو طریقے ہیں۔ ایک تو یہ کہ پانی کو زیر زمین ٹینکس میں جمع کر لیا جائے اور پھر وقت آنے یا ضرورت پڑھنے پر اس کا استعمال کر لیا جائے۔ پنجاب میں بھی اب اس طریقے پر غور کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہاں بھی پانی زمین میں بہت نیچے جا چکا ہے۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پانے کو برساتی نالوں کے ذریعے دریا یا سمندر تک پہنچایا جائے۔ حکومت سندھ کو چاہیئے ان مسائل کا حل تلاش کریں۔ کراچی والے خود کہتے ہیں کہ ‘‘کراچی چلتا ہے، تو پاکستان چلتا ہے’’۔ بارش کے باعث کاروبار اور روز مرہ کے کاموں کا رکنا کوئی اچھی بات نہیں۔ مخیر خضرات سے اپیل کے وہ وہاں کے غریب علاقوں میں امداد کی فراہمی میں مدد کریں۔اور اگر ہو سکے تو کوڑے کو تلف کرنے کے حوالے سے بھی کوئی حل تلاش کریں۔